صحافت کاتھکا دینے والا سفر

میں پردیس میں نہیں رہتا ۔۔ اسلام آباد یہ پڑوس میں ہی تو ہے لیکن دوریوں کا سفر شروع ہوئے زندگی کے چوبیس سال گزر گئے ہیں، یوں تو 1992میں جب میں قومی میڈیا کا حصہ بنا اور اس وقت کے مقبول اخبار روزنامہ خبریں کی ٹیم میں شامل ہوا ۔۔ تب سے یہ خواہش من میں لئے بیٹھاہوں کہ میں دس دن کی چھٹی جاوں گا۔۔ اپنے گاوں میں رہ کر لڑکپن اور چڑھتی جوانی کے یادگار دنوں کی یادیں تازہ کروں گا۔۔ کرکٹ کھیلوں گا۔۔ سربدی، کوٹ ، نکیاں، بگھو، گیدڑ ناچہ ، کالے کھولے اور دندی دے نکے جا کرگوموں گا ۔۔ بیٹھوں گا۔۔بحالی ، موئیاں ، کھواڑی ، جنکیاری ،منگلور ، داتہ ، مانسہرہ شہر جا کر پرانے دوستوں سے ملوں گا۔۔

لیکن صحافت بھی عجیب فیلڈ ہے ۔۔ بلکہ یہ کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ چسکا ہے۔۔ عمرخرچ ہوتی جارہی ہے شب و روز پہلے اخبارات کی خبریں اکٹھی کرتے۔۔ سرخیاں جماتے گزرتے رہے۔۔روزنامہ خبریں کی نیوز ایڈیٹری کی تو ساتھ آرٹیکل اور پریس نیوٹ بھی لکھنا پڑے۔۔ روزنامہ اساس راولپنڈی، روزنامہ پاکستان اسلام آباد میں چیف نیوزایڈیٹرز رہ کر بھی بہت سر کھپایا۔۔ روزنامہ اوصاف میں میگزین ایڈیٹر کے عہد ہ پر بھی فائز رہا۔۔ روزنامہ جنگ راولپنڈی کے ایڈیٹوریل سیکشن کا انچارج ہونا ۔۔ شذرے لکھنا اور بڑے بڑے کالم نگاروں کے کالم کو پالیسی کے مطابق ڈھالنا میرے لئے قابل فخر دور رہا۔۔ ۔

سات ماہ تک روزنامہ اوصاف کا اداریہ لکھتا اور ایڈیٹوریل سیکشن چلاتا رہا تو اس وقت حالات حاضرہ اور عالمی امور و مسائل پر لکھتے لکھتے ذہنی پختگی کایہ عالم ہو گیا تھا کہ میں کبھی کھبی خودکو سینئرصحافیوں کی صف میں کھڑا سمجھتا تھا کیونکہ اس وقت طارق وارثی صاحب ایسے سینئر صحافی کی موجودگی میں ادارتی پالیسی میرے ہاتھ میں آ گئی تھی ۔۔ اخبارکے مالک اور چیف ایڈیٹر مہتاب خان ایڈیٹر سے زیادہ مجھ پہ بھروسا کرتے تھے۔۔ ایڈیٹرکی نشست پر میرے پرانے کولیگ محترم دوست حنیف صابر صاحب کی موجودگی نے مجھے بہت اعتماد دیا۔۔۔پرنٹ میڈیا کے آخری تین سال ملک ریاض کے روزنامہ جناح میں گزارے جہاں ان دنوں جڑواں شہروں میں تمام اخبارات سے زیادہ تنخواہیں دی جاتی تھیں ۔۔۔ اسی دوران ہمارے من میں الیکٹرانک میڈیا میں شمولیت کے ارمان جاگ اٹھے تھے۔۔

میں اور میرا ایک سینئر دوست اور کولیگ علی عمران ایکسپریس نیوز اسلام آباد کے نیوز روم سے منسلک ہو گئے۔۔میرے دل میں اپنے گاوں کریڑ جانے اور کچھ دن قیام کرنے کی خواہش اب بھی مچلتی تھی۔۔میرا خیال تھا کہ اخبارات کی مصروفیت سے جان چھوٹے گی تو ذرا ریلیکس ماحول میں دوستیاں ، یاریاں ، گراں ولیاں بھی ساتھ چل جائیں گی ۔۔۔ مگر وہ کہتے ہیں نا ۔۔۔ کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والی بات ہوگئی۔۔۔ہم نے چھوٹی مصروفیت دے کر بڑی خرید لی تھی۔۔ اخبارات کے نیوز روم کا امتحان ہر رات کو ہوتا ہے اور صبح مارکیٹ میں پہنچنے والا پیپر بتاتا ہے کہ نیوز ایڈیٹر میں نیوز سمجھنے کی اہلیت کتنی ہے ۔۔ کیونکہ صبح اہل دانش اورقارئین اخبارات میں خبروں کا ڈسپلے اور انتخاب دیکھ کر اندازہ کرلیتے ہیں کہ کون نیوز ایڈیٹر کس جگہ کھڑا ہے۔۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا میں یہ مقابلہ ہر منٹ کا ہے ۔۔

ٹکرز کی دوڑ نے رپورٹرز کو تو وختہ ڈالا ہی ہے نیوز روم کا سکون بھی غارت کردیاہے۔۔۔پہلے تو خبروں کا فلو ہی اتنا ہوتا ہے کہ آپ کو سر اٹھانے کی فرصت نہیں ملتی ۔۔۔ اور اگر کبھی خبروں کی ٹھنڈ ہو تو پھر بھی ٹکرز سر اٹھاتے اور تڑپاتے رہتے ہیں۔۔ قارئین کی معلومات کیلئے اسلام آباد میں قائم ٹی وی چینلز کے نیوز رومز سے یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب پشاور ، کوئٹہ اور کراچی میں دھماکہ ہو جائے تو اسلام آباد میں بیٹھے صحافی سکھ کا سانس لیتے ہیں۔۔ اس لئے نہیں کہ خدانخواستہ ہمیں دکھ نہیں ہوتا۔۔ بلکہ اس لئے کہ دو چار گھنٹےسکرین پر کراچی والوں کا قبضہ ہوتا ہے اور اسلام آباد والے ریلیکس ہو جاتے ہیں کہ اب ہماری اپ ڈیٹ کی ضرورت نہیں نہ ہی سکرین فارغ ہے۔۔۔

مجھے آج بھی یاد ہے جب ہم نے ستمبر 1992میں خوشنود علی خان صاحب کی قیادت میں خبریں اخبار سے قومی صحافت میں قدم رکھا تھا تو ہمارے سب نیوز روم اور رپورٹنگ کے کولیگز جوان تھے۔۔ شاہد صابر، عامرالیاس رانا، مشتاق منہاس، زاہد جھنگوی ، طارق عثمانی، جاوید اقبال چیمہ، عبدالظہور مشوانی، زاہد مشوانی، عابد فاروقی، علی عمران، فیاض ولانہ، عزیز احمد خان ، تنویر احمد، عظمت اللہ، خواجہ شفقت ، سردار ندیم صدیق ، حافظ نذیر احمد، انوارالحق کاظمی،اظہر سید، مقصود علی شاہ، اکرام بخاری اور کئی دوسرے تقریباً سب ایج فیلوز تھے۔۔

نوجوانوں میں ایسی پھرتیاں ، تیزیاں ، نئے نئے آئیڈیاز، جہاں ظلم وہاں خبریں کے چرچے تھے ۔۔۔ ہم ان دنوں نوائے وقت اور جنگ کے بوڑھے صحافیوں کا ذکر کرتے اور خوش ہوتے تھے کہ صحافت میں نیا خون شامل ہو گیا ہے۔۔۔ آج پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو چوبیس سال گزر گئے ہیں۔۔۔ہم بال کالے کرکے ۔۔ کلین شیو بنا کر۔۔۔ اچھے اچھے کپڑے پہن کر نیشنل پریس کلب جائیں یا اپنے دفاتر میں۔۔ ہمارے بعد کے آنے والے ڈیسک اور رپورٹنگ کے لوگ ہمیں سر کہہ کر بلاتے ہیں تو عجیب سا لگتا ہے۔۔۔

سچ پوچھیں تو اب بھی دل نہیں کرتا کہ لوگ سینئر کہیں۔۔مجھ سمیت بہت سے میرے ایج فیلوز اس بات پر بضد ہیں کہ ہم جوان ہیں۔۔ لیکن حقیقت کو جھٹلایا بھی نہیں جاسکتا۔۔ ہم نے اپنے حصے کی جوانیاں گزار لی ہیں۔۔۔ میں وفاقی دارالحکومت میں نہ صرف سکونت اختیار کرچکا ہوں بلکہ میر ا شناختی کارڈ بھی اور ووٹ بھی اسلام آباد بھی ہی کا بن چکا ہے لیکن اس کے باوجود وہ خواہش دل میں زندہ ہے کہ میں کچھ دن گاوں جاوں ویلہ پھروں۔۔ یادیں تازہ کروں مگراب وقت گزر چکا ہے۔۔

میں اب گاوں جاوں بھی تو میرا وہاں منتظر کوئی نہیں ہے۔۔ میرے لئے وہاں بھی کئی دل دکھانے والی یادیں ہے جو میرا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔۔ مجھ سے پیار کرنے والے میرے والدین اب حیات نہیں ہیں۔۔ میرا فخر میرا مان میرابڑا بھائی کفایت الرحمان منوں مٹی تلے جاپہنچاہے۔۔ نا گاوں میں دوست ہیں۔۔ نہ وہ رونقیں ۔۔ اب تو جانا بھی ہو تو گھر، کھیت ، کھلیان، وہ پرانی یادیں ڈسنیں کو دوڑتی ہیں۔۔ اسی لئے ہم نے صحافت سے دوستی کرلی ہے ۔۔ جو عمر کو کھا بھی رہی ہے اور پتہ بھی نہیں چلتا وقت گزرنے کا۔۔ زمینی حقائق سے آج بس اتنی ہی حاضری قبول فرمائیں۔۔ انہی صفحات پر ملاقات رہے گی ۔۔۔ بشرط زندگی۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے