’’پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن آف پاکستان ‘‘کا قضیہ

’’پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن آف پاکستان ‘‘ اور ’’یو ایس کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی‘‘ کے اشتراک سے مرتّب کی ہوئی جس رپورٹ پر میں نے 3 اکتوبر کے کالم میں گفتگو کی ہے اور اپنی انتہائی تشویش کا اظہار کیا ہے، وہ مندرجات جنابِ انصار عباسی کے کالم سے اخذ کیےگئے تھے اور عباسی صاحب نے اُس رپورٹ کا اردو اور انگریزی متن بھی ہمیں ارسال کیا، کیونکہ جب تک کسی چیز کا اصل ماخذ معلوم نہ ہو، اُس پر تبصرہ کرنا ہمارا شعار نہیں ہے۔ اس کے بعد ’’پیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن آف پاکستان‘‘ کا اِن مُندرجات سے اعلانِ برات بذریعہ ای میل ہمیں موصول ہوا، اُس کا میں نے کالم میں ذکر کردیا تھا اور اُس حد تک اس کی تحسین بھی کی تھی، لیکن اس سے اصل مسئلے کے بارے میں ہماری تشویش کا ازالہ نہیں ہو رہا تھا۔

اصل تشویش کا مدار یہ تھا کہ اس رپورٹ کے مرتّب کرنے اورحتمی شکل دینے میں ’’پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن آف پاکستان‘‘ کا اشتراکِ عمل شامل ہے۔ آج مجھے بذریعہ ڈاک ’’پیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن آف پاکستان‘‘ کا تفصیلی مؤقف موصول ہوا ہے۔ اس میں جنابِ ’’جُوڈِتھ گولَب‘‘ کا اعتذار پر مبنی ایک مکتوب ’’ادارۂ امن وتعلیم‘‘ کے سربراہ جنابِ اظہر حسین کے نام شامل ہے، جو ادارے نے ہمیں ارسال کیا ہے۔ یہ صاحب ’’امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی آزادیٔ مذہب‘‘میں ’’ڈائریکٹر برائے گورنمنٹ و میڈیا روابط‘‘ کے منصب پر فائز ہیں، اس مکتوب میں لکھا گیا ہے :

’’رپورٹ کی ایڈیٹنگ اور ترجمے میں سرزد ہونے والی غلطیوں کے نتیجے میں جو پیچیدگیاں پیدا ہوئیں، اُس پر ہمیں افسوس ہے۔ اس ای میل کے ذریعے آپ کومطلع کیا جاتا ہے کہ رپورٹ پر نظرثانی کردی گئی ہے۔ اِسی بناء پر ہم نے USCIRE کی ویب سائٹ سے یہ تمام حوالہ جات ہٹا دیے ہیں اور یہ دوبارہ جاری کرنے کے لیے ہماری ویب سائٹ پر موجود نہیں ہیں۔ لہٰذا اگر آپ ہمارے مکتوب کوشائع کریں تو ہمیں اس پر اطمینان ہوگا اور رپورٹ کے متن پر آپ کے اطمینان کے مطابق نظرثانی کردی گئی ہے۔ ازراہِ کرم مطلع فرمائیں کہ کیااس سے آپ کا مقصد پورا ہوگیا ہے‘‘۔

جنابِ اظہر حسین نے اپنے مکتوب میں لکھا :’’رپورٹ کا مقصد محض پاکستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی درسی کتب میں ریاستِ پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کے آئینی حقوق کے حوالے سے عدمِ برداشت کے رجحانات کی نشاندہی کرنا تھا۔ اس رپورٹ کی ابتدائی تحقیق میں ہمارے ادارے کے ریسرچ اسٹاف نے کام کیا۔ تاہم ’’امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی‘‘ کی جانب سے شائع شدہ رپورٹ میں چند باتوں کا اضافہ کرکے یہ لکھ دیا گیا: بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے درسی کتابوں سے اسلام کے’’ بطورِ واحد دینِ حق‘‘ بیان کرنے کو ختم کیا جائے، اس غلطی کو تسلیم کرنے میں ہمیں کوئی عار نہیں ہے کہ ادارے کی جانب سے اس رپورٹ کے آخری مسودہ کا مطالعہ نہیں کیا گیا ۔ہمارا حُسنِ ظن یہی تھا کہ رپورٹ کا متن اور سفارشات وہی ہیں ،جو ادارے نے تجویز کی ہیں، جنابِ انصار عباسی کی نشاندہی پر ہمارے ادارے نے ’’امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی ‘‘ کے ذمے داران سے فوراً احتجاج کیا ،جس پر انہوں نے ایڈیٹنگ کے دوران زبان وبیان میں اپنی غلطی پر معذرت کرتے ہوئے اس رپورٹ کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹا لیا ہے اور رپورٹ کو از سرِ نو جائزہ لینے کے لیے ادارۂ امن وتعلیم کو بھیج دیا ہے۔ انہوں نے مزید لکھا: ہم نے اپنی رپورٹ میں اسلام کی حقانیت اور اسلامی تعلیمات پر کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی درسی کتب سے اسلامی تعلیمات کو نکالنے کے لیے کہا ہے۔ انہوں نے دینی مدارس کے لیے کچھ کلماتِ خیر بھی کہے ہیں‘‘۔ اُن کا مکتوب طویل ہے اور اُس کے پورے متن کایہ کالم مُتَحَمِّل نہیں ہو سکتا۔

ہم اس اعتذار اور رپورٹ کو واپس لینے کے اِقدام کی تحسین کرتے ہیں، لیکن ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ اصل رپورٹ کا متن کسی ردّ و بدل یا حذف واضافہ کے بغیر مِن وَعَن ہمیں دکھایا جائے تاکہ ہمیں اطمینان ہو اور اصل مقاصد کا پتا چل سکے۔ نیز ہم یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ رپورٹ کے مرتّبین کی نظر میں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں غیر مسلم طلبہ وطالبات کے ساتھ کون سا نامناسب رویہ اختیار کیا جارہا ہے اور انہیں کون سے آئینی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔اگر ہمیں اس کے شواہد مل جائیں، تو ہم بھی اُن کا مداوا کرنے کے لیے بہتر تجاویز دے سکتے ہیں۔ اسلام میں مُداہَنت اور مُنافَقت کی گنجائش تو نہیں ہے ،البتہ مُدارات اور رواداری کی گنجائش ہے اور ہمیں اس کی پاسداری کرنی چاہیے۔ ہم ’’پیس اینڈایجوکیشن فائونڈیشن آف پاکستان ‘‘سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے انگلش میڈیم تعلیمی اداروں میں جو غیر ملکی نصابی کتب پڑھائی جارہی ہیں ، ہماری دینی اَقدار سے اُن کی مناسبت تو بہت دور کی بات ہے، ہماری تہذیب وثقافت ، روایات اور معاشرتی اَقدار سے بھی انہیں کوئی واسطہ اور مناسبت نہیں ہے ۔نام سارے مغربی ہیں ،کتے بلیوں سے رغبت بچوں کے ذہنوں میں پیدا کی جاتی ہے اور مغربی تہذیب کو اس نصاب کے ذریعے نہایت سائنٹیفک طریقے سے پاکستانی بچوں کے ذہنوں میں جاگزیں کیا جاتا ہے ۔کیا یہ ادارہ اس پر بھی کوئی رپورٹ مرتّب کرنا پسند کرے گا؟،اگر اس کا جواب اثبات میں ہو ،تو ہمارے لیے بڑی خوشی کی بات ہوگی۔ یہ کتابیں جو تہذیب سکھاتی ہیں، ہمارے بچوں کے گھریلو اور گِردوپیش کے ماحول کے لیے ،وہ بالکل اجنبی اور نامانوس ہے ،کیا ہماری ریاست وحکومت اور اصلاح کے درپے این جی اوز نے کبھی اس پر بھی توجہ دی ہے؟۔

کوئی این جی او ریسرچ کر کے ہمیں یہ بھی بتائے کہ ہمارے جدید انگلش میڈیم اداروں میں کتنے قسم کے نصاب پڑھائے جاتے ہیں اور کیا اُس نصاب کے نتیجے میں ’’میڈاِن پاکستان‘‘ نسل تیار ہو رہی ہے یا ذہنی اور فکری انتشار سے آلودہ نسل تیار کی جا رہی ہے۔ کوئی ہمیں بتائے کہ اس وقت پاکستان میں تعلیم کی تجارت سے بڑھ کر کوئی منفعت بخش تجارت ہے، ایک طالب علم یا طالبہ سے اتنی فیس لی جارہی ہے، جتنا ایک معلّم یا معلّمہ کو مشاہرہ بھی نہیں دیا جاتا۔ کوئی تعلیم کے اِن تاجروں ،ساہوکاروں اور استحصالی طبقے کو اس بات پر آمادہ کرسکتا ہے کہ وہ پاکستان کی مذہبی اَقدار اور تہذیب وثقافت سے جڑا ہوا کوئی نصاب تیار کریں اور تمام جدید تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب پڑھایا جائے۔ ساری دنیاجس غم میں گھل رہی ہے، وہ پاکستان کے لوگوں کی مذہب سے وابستگی اور مذہبی اَقدار سے جڑے رہنے کا جرم ہے، جو ہمارے ان مہربانوں کی نظر میں ناقابلِ معافی ہے اور اِسی بنا پر دینی مدارس وجامعات کو ہمیشہ طعن وتشنیع کا ہدف بنایا جاتا ہے ۔

’’پیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن پاکستان‘‘ نے ’’تعلیمِ امن اوراسلام‘‘ کے نام سے جو کتاب ماہر اساتذہ سے تعلیمی اداروں کے طلبہ وطالبات کے لیے مرتّب کرائی، اُس کی ہم نے تحسین کی، کیونکہ اختلاف برائے اختلاف ہمارا شعار نہیں ہے۔ چونکہ وہ کتاب پاکستانی اور اسلامی ذہن رکھنے والے اہلِ علم نے مرتّب کی ہے، اس لیے اُس میں کوئی قابلِ اعتراض اور منفی بات نہیں ہے اور نہ ہی یہ تاثّر پیدا ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی ایجنڈا کارفرما ہے۔ حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ مغرب میں یہ سوچ راسخ ہوچکی ہے کہ مسلمان جذباتی ہیں، عدم برداشت اور غیر محتاط ردِّ عمل ان کے مزاج، ذہنی نہاد اور Mind set کا ’’جُزوِلا یَنْفَک‘‘یعنی Inseparable Part بن چکاہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کی نظر میں مسلمانوں میں یہ بیماری ناقابلِ علاج ہے اور انہیں اس کی فکر دامن گیر ہے۔ وہ حسبِ توفیق اِس کے لیے اپنے وسائل صَرف کرتے رہتے ہیں اور تمام ممکنہ تدابیر اختیار کرتے رہتے ہیں ۔کاش کہ وہ اپنے وسائل اس پر خرچ کریں کہ مسلمانوں کی اس جذباتیت کے داخلی اور خارجی عوامل کیا ہیں؟

امریکن قونصلیٹ جنرل کراچی میں قونصل جنرل کے منصب پر فائزمحترمہ Grace Shelton سے مختلف مذاہب کے رہنماؤں کے ہمراہ ہماری ایک ملاقات ہوئی اور اُس میں مختلف موضوعات پر بات ہوئی۔ ہمارے ایک ساتھی نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا:’’پاکستان میں جہالت اور غربت کی وجہ سے لوگ دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہوتے ہیں‘‘۔ اس پر میں نے کہا: ’’ کسی حد تک یا چلیے کافی حد تک ہم اس جواز کو مان لیتے ہیں، لیکن میرا آپ سے سوال ہے: ’’امریکہ اور یورپین ممالک جو اس دنیا کی جنت سمجھے جاتے ہیں، جہاں تعلیم بھی ہے، عیش وعشرت کے تمام اسباب بھی میسّر ہیں اور آزادی اظہار کے مواقع بھی ہیں۔ وہاں کی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کیوں آ کر داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں میں شامل ہوتے ہیں؟‘‘۔ کیا کبھی مغرب کی مجالسِ مفکّرین (Think Tanks) نے اس کے اسباب وعوامل پر غور کیا ہے؟ یہ بھی ایک جائز سوال ہے کہ ہزاروں ارب ڈالر خرچ کرنے اور لاکھوں انسانوں کو موت سے ہمکنار کرنے کے بعد کیا افغانستان، عراق، شام، لبنان اور یمن وغیرہ میں امن قائم ہوگیا ہے؟ سو اِس پر بھی ٹھنڈے دل سے اورغیر متعصبانہ ماحول میں غور کرکے امریکہ اور اہلِ مغرب کو اپنی حکمتِ عملی کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دنیا کا ایک بڑا مسئلہ دہشت گردی اور تخریب وفساد ہے اور آج دنیا کاسب سے بڑا مطالبہ اور مطلوب اپنے اپنے ممالک میں اور عالَمی سطح پر انسانیت کے لیے امن وسلامتی کا حصول ہے۔ یہ امر مسلَّم ہے کہ طاقت بہت کچھ ہے ،مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ طاقت سب کچھ نہیں ہے ،کچھ حقیقتیں اس سے بھی ماوراہوتی ہیں ۔طاقت استعمال کر کے آپ موت سے ڈرا سکتے ہیں یا موت سے ہمکنار کرسکتے ہیں،مگر جس نے موت کو اپنی آرزو بنالیا ہو ،اُس کی اصلاح آپ طاقت سے کیسے کریں گے؟ لہٰذااگرانسانیت کی اجتماعی عقل ودانش بانجھ نہیں ہوگئی، تو کچھ اور تدابیر اور حکمتِ عملی اختیار کرنے پر بھی غور کرنا چاہیے۔

ہندو مذہب کے نمائندے بھی مجلس میں موجود تھے، اُن کی شکایت ہندو بچیوں کا اسلام قبول کرنا تھا۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ سروے کر کے سچ سچ بتائیے کہ وہ ہندو لڑکیاں جو مسلمان لڑکوں سے محبت میں گرفتار ہو کر اسلام قبول کرتی ہیں، اُن کا تناسب یا اعداد و شمار کیا ہیں اور اگر کسی کو جبراً اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا ہے، تو اُن کی تعداد کیا ہے؟ اگر ہمیں جبر کے واقعی ثبوت یا شواہد مل جائیں تو ہم آپ کے ہم آواز ہونے کے لیے تیار ہیں، لیکن بلاتحقیق پروپیگنڈا کرنا درست نہیں ہے۔ ہندو مذہب کی نمائندہ خاتون نے اعتراف کیا کہ آپ کی بات درست ہے اور ایک معتَد بہ تعداد ایسی بچیوں کی موجود ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے