شلوار قمیصیں پیچنے والا جنید جمشید

مجھے میرے دونوں صحافی دوست کہہ رہے تھے کہ دیکھو نہ تو جنید بین الاقوامی سنگر تھا اور نہ ہی وہ عالم دین یا مولانا ہے، جیسا کہ میڈیا میں ڈھونڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ ایسے ہی اسے سر پر چڑھایا جا رہا ہے۔ بس یہ ہوا ہے کہ جو کل تک دین اور مذہب کو دکانداری بنانے پر جنید جمشید پر تنقید کر رہے تھے، آج وہ بھی ہوا دیکھ کر اس کی تعریف کر رہے ہیں۔

مجھے اپنے ان دونوں صحافی دوستوں سے شدید اختلاف تھا۔ میں نے کہا کہ آپ صرف یہ ماننا نہیں چاہ رہے کہ کسی داڑھی والے شخص کے اتنے زیادہ چاہنے والے ہو سکتے ہیں۔

اگر میں جنید جمشید سے اپنی وابستگی کو ایک طرف بھی رکھوں تو بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جنید جمشید کو جتنی شہرت اور عزت حاصل ہوئی ہے ایسی کم ہی کسی کو ملتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں دو شخصیات کے سوا ایسا کوئی ایک بندہ نہیں دیکھا، جنہوں نے اپنا شعبہ چھوڑ کر کوئی دوسرا شعبہ اختیار کیا ہو اور لوگوں نے پھر بھی انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا ہو۔ ان میں سے ایک جنید جمشید ہیں اور دوسرے عمران خان ہیں۔ آپ پاکستان کی تاریخ نکال کر دیکھ لیں جس گلوکار یا اداکار نے اپنا شعبہ چھوڑ کر کچھ اور کرنا چاہا، وہ رات کی سیاہی میں کھو گیا۔ بات اگر صرف جنید جمشید کی ہی کی جائے تو ایسی بھی کوئی مثال نہیں ملتی، جس شخصیت کی وفات پر شوبز کی دنیا پر بھی سکتہ چھایا ہو اور مذہبی حلقے بھی آنسو بہا رہے ہوں۔ مائرہ خان، ماریہ واسطی، عروہ ہوکین، قراہ العین بلوچ، علی عظمت، علی ظفر، فخر عالم وہ کونسا بڑا اداکار، اداکارہ، گلوکار، گلوکارہ، کرکٹر یا پھر اینکر ہے جس نے جنید جمشید کی وفات پر دکھ کا اظہار نہ کیا ہو؟ دوسری طرف پاکستان کا بہت بڑا مذہبی طبقہ جنید جمشید کے غم میں نڈھال ہے۔ اور سب سے بڑھ کر جنید جمشید کی وفات پر وہ طبقہ اظہار افسوس کر رہا ہے، جو نہ تو مذہبی ہے اور نہ ہی اس کا تعلق شوبز سے ہے اور یہ پاکستان کا سب سے بڑا طبقہ ہے۔

میں اپنے دونوں صحافی دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ بے شک جنید جمشید کوئی مولانا یا عالم دین نہیں تھے لیکن وہ اس سے کچھ بڑھ کر تھے۔ بے شک وہ بین الاقوامی سنگر نہیں تھا لیکن لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت بتاتی ہے کہ اس کا مقام اس سے کہیں اونچا تھا۔ کیوں کہ اتنی بڑی تعداد میں چاہنے والے نہ تو کبھی کسی مولانا کو نصیب ہوئے ہیں اور نہ ہی کبھی کسی سنگر کو۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان میں چھوٹی موٹی غلطیاں ہوتی ہیں اور جنید جمشید بھی انسان ہی تھے لیکن کوئی ایسا انسان بھی دکھا دیجیے کہ جس میں کوئی کمی کوتاہی نہ ہو ؟ لیکن ہم وہ قوم ہیں جو کسی شخص کی ننانوے خوبیاں چھوڑ کر صرف ایک عیب پر نظر رکھتے ہیں۔ کیا جنید جمشید کی صرف اس وجہ سے تعریف نہ کی جائے کہ اس کے نظریات ہم سے مختلف تھے، اس کا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا یا پھر ہمیں اس کی داڑھی یا ٹوپی پسند نہیں تھی۔

اختلاف کی وجہ کوئی بھی ہو لیکن یہ بات واضح ہے کہ ہماری رائے سے جنید جمشید کا قد چھوٹا نہیں ہو جائے گا یا پھر پاکستانی عوام کے دلوں میں اس کی محبت میں بھی کمی نہیں آئے گی۔

مجھے اپنے دوستوں کی رائے سن کر خواجہ آصف صاحب کا وہ فقرہ یاد آ رہا ہے، جو انہوں نے جاوید چودھری صاحب کے پروگرام میں جنید جمشید کے بارے میں کہا تھا کہ "شلواریں قیمضیں بیچتا ہے تو جنید بڑا اور معتبر نام ہو گیا ہے؟ حلیہ بلدلنے سے انسان عالم دین بن جاتا ہے؟”

اپنے فقرے کے اختتام پر انہوں نے کہا تھا کہ انسان قول و فعل سے معتبر ہوتا ہے۔

میں آج خواجہ صاحب، جنید جمشید کی وفات کے بعد خوشی منانے والے مخصوص مذہبی لوگوں اور تنقید کے نشتر چلانے والوں کو کہنا چاہتا ہوں۔ یہ جنید جمشید کے قول و فعل ہی ہیں کہ پاکستان میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اس کی وفات پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں، اس سے محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔ شلواریں قمیضیں بیچنے والا واقعی بڑا نام نہیں بن جاتا۔ لیکن جنید جمشید خواجہ آصف صاحب اور ان جیسے ہزاروں تنقید کرنے والوں سے بڑا اور معتبر نام تھا۔ مجھے نہیں یقین کہ خواجہ آصف یا پھر جنید جمشید پر تنقید کرنے والوں میں سے کسی ایک کی بھی وفات پر اتنی آنکھیں اشکبار ہوں گی۔ یہ آنسو بتاتے ہیں کہ کون کتنا بڑا نام اور کس قدر معتبر شخص تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے