جنید جمشید کون تھا؟

زندگی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زندگی کسی اولجھے ہوئے سوال کا نام نہیں ہے۔
یہ توایک دیکھنے والا منظرہے۔

ایک سنے والا نغمہ ہے۔

اپنے لیے اور صرف اپنے لیے جینا چھوڑ کے دوسروں کے لیے جینا زندگی ہے۔

یہ تو خالق کی عطا ہے۔

یہ تواس کا ہم پر احسان۔

زندگی تو بس زندگی ہے۔

کوئی مشکل معمہ نہیں۔

شاید وہ بھی یہ راز جان گیا تھا۔شاید اس نے بھی اپنی زندگی کے الجھے سوالوں کے جوابات تلاش کرلیے تھے۔

1980کے عشرے میں اپنے نغموں سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے والا جنید جمشید شاید یہ راز جان چکا تھا کہ زندگی تو بزات خود ایک نغمہ ہے۔جس میں سوز بھی ہے ۔درد بھی ہے اورعطا بھی۔

یہ 2004 کے اوائل کا دور تھا ۔ یہ اسکی زندگی میں آنے والے بڑی تبدیلیوں کا دور تھا ۔یہ آگے بڑہنے کا نہیں بلکہ پلٹنے کا دور تھا۔

بے شک جب تک انسان کے رب کا اس پر کرم نہ ہو ۔ تب تک وہ کسی خیر کی طرف پلٹ نہیں سکتا ۔

اور پھر ایسے وقت میں پلٹنا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے جب انسان کہ پاس وہ سب کچھ ہو ۔ جس کی وہ اس دنیا میں چاہت رکھتا ہو شہرت عزت پیسہ اس کے پاس کیا نہیں تھا۔

2004 سے 2016 کا درمیانی دور وہ دور ہے جس میں ہم جنید جمشید کے نام سے ایک ایسے انسان کو جانتے ہیں جس نے اپنی زندگی دعوت و تبلیغ کے لیے وقف کر دی تھی ۔

جس نے اپنے لیے جینا چھوڑ کے دوسروں کے لیے جینا سیکھ لیا تھا ۔

جنید جمشید آج ہمارے درمیان موجود نہیں انھوں نے اس موت کا زائیقہ چکھ لیا ہے جس کا کل ہم سب نے چکھنا ہے جنید جمشید کا سفر تمام ہوا اور ہمارا کچھ باقی ہے۔

جنید جمشید کی وفات کے بعد بہت سی باتیں منظر عام پر آئیں کچھ تعریفی اور کچھ تنقیدی

کسی نہ جنید جمشید کو ایک مبلغ کہا تو کسی نے ایک بزنس مین۔

کسی نے نعت خواں کہا تو کسی نے سنگر۔

غرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔

ہم کسی بھی انسان کو اسکے ظاہر سے جانتے ہیں جبکہ دلوں کا حال صرف اور صرف اللہ ہی جانتا ہے۔

اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے زلت۔

بحیثیت اللہ کے بندے ۔ہم پر لازم ہے کہ اللہ جسے عزت دے ہم بھی اسے عزت دیں۔

جنید جمشید سنگر تھا یا نعت خواں؟

جنید جمشید مبلغ تھا یا بزنس مین؟

جنید جمشید اپنی عارضی زندگی سے نکل کر ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کی طرف منتقل ہوگئے ہیں اب جو بھی معاملہ ہے۔ وہ اللہ اور انکے درمیان ہے۔

جنید جمشید کا سفر تمام ہوا۔پر ہمارا ابھی کچھ باقی ہے

ہمارے لیے جنید جمشید کی شخصیت کو متنازعہ بنانے سے بہت بہتر یہ ہے کہ ہم جنید جمشید کی زندگی کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں

اگر آپ کے لیے جنید جمشید کی شخصیت قابل تقلید ہے ؟تو جنید جمشید کی اچھی باتوں کو اپنانے کی کوشش کریں۔

اور اگر آپ کے لیے جنید جمشید ناپسندیدہ ہے ؟تو اس کا فیصلہ اللہ پر چھوڑیں

کیونکہ ہمارے باہمی اختلافات چاہے کتنے ہی حساس نوعیت کہ ہی کیوں نہ ہوں۔ بالآخر وہ ہماری زندگی کے ساتھ ہی تو جڑے ہوتے ہیں اسلیے جہاں جسم سے سانس کا رشتہ ٹوٹا وہاں اختلاف کا رشتہ بھی ٹوٹ جانا چاہیے ۔

میرے لیے آج یہ اہم نہیں ہے کہ جنید جمشید کون تھا؟ سنگر؟ نعت خواں ؟مبلغ اسلام یا پھر ایک بزنس مین؟

میرے لیے آج یہ اہم ہے کہ اس دنیا سے چلے جانے والا جنید جمشید اپنے بوڑے والدین کی آنکھ کا تارہ تھا اپنی بیوی کے سر کا تاج تھا اپنی بہن کے لیے تحفظ کا احساس تھا ۔اور اپنے بچوں کے لیے ایک شفیق باپ تھا اگر جنید جمشید کہ جانے سے کسی کی زندگی میں کچھ فرق پڑہتا ہے تو وہ یہ لوگ ہیں

اس لیے جنید جمشید کی شخصیت کو متنازعہ بنانے سے پہلے ہمیں یہ سوچ لینا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ! ہماری بیجا تنقید کسی مرنے والے کے لواحقین کے لیے باعث تکلیف تو نہیں بن رہی؟

اللہ جنید جمشید کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مرحوم جنید جمشید کے آسانی کا معاملہ فرمائے آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے