میانمار:’حرکہ الیقین کے تانے بانے سعودی عرب سے ملتے ہیں‘

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 27 ہزار افراد جن کی اکثریت روہنگیا اقلیتی آبادی پر مشتمل ہے سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش چلے گئے ہیں. عالمی تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ میانمار یا برما میں روہنگیا اقلیت کی جانب سے سرحدی محافظوں پر حملے میں ملوث افراد کے تانے بانے سعودی عرب سے ملتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم حرکہ الیقین کا قیام بھی سعودی عرب میں عمل میں آیا تھا اور اس کے آپریشنز کی نگرانی بھی وہیں سے کی جاتی ہے۔

رواں سال اکتوبر میں میانمار کے سرحدی محافظوں پر ہونے والے اس حملے میں نو پولیس اہلکار مارے گئے تھے جس کے بعد مسلم اکثریتی ریاست رخائن میں روہنگیا آبادی کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوگیا تھا۔ ریاستی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس کریک ڈاؤن میں اب تک 86 افراد مارے گئے جبکہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 27 ہزار افراد جن کی اکثریت روہنگیا اقلیتی آبادی پر مشتمل ہے سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش چلے گئے ہیں۔

سرحدی محافظوں پر حملے کی ذمہ داری سنہ 2012 میں وجود میں آنے والے حرکہ الیقین نامی ایک گروپ نے ویڈیو پیغامات کے ذریعے قبول کی تھی اور آئی سی جی کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی یہ رپورٹ اس گروپ کے چھ ارکان کے انٹرویوز کی بنیاد پر تیار کی ہے۔ میانمار کی حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ اس حملے میں روہنگیا افراد کو غیر ملکی شدت پسندوں کی معاونت بھی حاصل تھی۔

بدھ کی شام جاری ہونے والی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حرکہ الیقین کا ہیڈکوارٹر مکہ میں ہے۔ اسے چلانے والی کمیٹی 20 ارکان پر مشتمل ہے اور یہ تمام افراد یا تو روہنگیا پناہ گزین ہیں یا کم از کم روہنگیا نسل سے ہیں۔ آئی سی جی کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب سے ہی تعلق رکھنے والے 20 کے قریب دیگر روہنگیا جنگجو جن میں ان کے پاکستان میں پیدا ہونے والے رہنما عطا اللہ بھی شامل ہیں، رخائن میں کارروائیوں کی قیادت کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ سرحدی محافظوں پر حملے سے قبل یہ روہنگیا جنگجو جو کہ ممکنہ طور پر پاکستان اور افغانستان میں لڑ چکے ہیں، دو برس تک شمالی رخائن میں دیہاتیوں کو اسلحہ کے استعمال اور گوریلا طرز کی لڑائی کی تربیت بھی دیتے رہے۔

رواں سال اکتوبر میں میانمار کے سرحدی محافظوں پر ہونے والے اس حملے میں نو پولیس اہلکار مارے گئے تھے. حرکہ الیقین کے رہنما عطا اللہ کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں پیدا ہونے والے عطا اللہ کے والد روہنگیا اقلیتی مسلمان تھے اور انھوں نے اپنا بچپن سعودی عرب میں گزارا جہاں وہ ایک مدرسے میں زیرِ تعلیم رہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گروپ کے ارکان کے انٹرویوز سے یہ بات سامنے آئی کہ 2012 میں رخائن میں پرتشدد واقعات کے آغاز کے بعد عطا اللہ سعودی عرب سے غائب ہوئے اور غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پاکستان اور دیگر ممالک میں گئے جہاں انھوں نے جدید گوریلا جنگ کی تربیت حاصل کی۔
آئی سی جی کا کہنا ہے کہ القاعدہ اور شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ برصغیر میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کا فائدہ اٹھا کر انھیں شدت پسندی کی جانب مائل کر سکتے ہیں اور کچھ روہنگیا جنگجو بین الاقوامی شدت پسندوں سے رابطے میں ہیں۔ تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ گروپ رخائن میں شہریوں پر حملوں میں ملوث نہیں ہے۔

حرکت الیقین کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اُن کا مقصد میانمار میں روہنگیا مسلمان کے ساتھ ظلم و زیادتی کو ختم کرنا اور انھیں شہریت دلوانا ہے۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے کہا ہے کہ ’ایسا ممکن ہے کہ یہ گروہ عالمی جہادی گروہوں کے ساتھ اپنے تعلقات اور مستقبل میں اپنے مقصد کو مذہب کی بنیاد پر وسعت دے۔ اس لیے ضروری ہے کہ میانمار کی حکومت روہنگیا کے مسئلے کو عسکری طریقے سے حل کرنے کے بجائے ان کے مسائل اور خدشات کو دور کرنے کی کوشش کرے۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے