عمران خان پر ’یو ٹرن‘ کا الزام کیوں؟

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر ’یو ٹرن’ لینے کے الزامات لگ رہے ہیں جن میں حالیہ دنوں میں شدت آگئی ہے۔عمران خان موجودہ حکومت کے خلاف بڑے جارحانہ انداز میں اپوزیشن کر رہے ہیں

عمران خان کے حکومتی ‘کرپشن’ کے خلاف مسلسل احتجاج پر مسلم لیگ ن کے رہنما گاہے بگاہے انھیں ‘یو ٹرن خان’ تک کہنے سے باز نہیں آتے۔ عمران خان کے فیصلے کرنے اور پھر ان میں سے کچھ کو واپس لینے کی باز گشت بدھ کو بھی پارلیمنٹ میں سنائی دی جب وزیراعظم کے خلاف تحریک استحقاق پر بات کرتے ہوئے ریلوے کے وفاقی وزیر سعد رفیق نے کہا کہ عمران خان بیانات دیتے اور واپس لیتے ہیں۔

تحریک انصاف کے سربراہ نے گزشتہ روز اچانک اعلان کیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ختم کر رہے ہیں۔ یہ فیصلہ اور اس قسم کے کچھ ایسے فیصلے اور بیانات یا اعلانات ہیں جن کے باعث عمران ہدف تنقید بنے ہوئے ہیں۔ انہیں میں سے کچھ فیصلے یہ ہیں۔

•تیرہ ستمبر 2016 پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ختم کرنے کا اعلان. اس سے قبل پی ٹی آئی پانچ اپریل 2015 کو آٹھ ماہ کے احتجاج کے بعد اسمبلی میں واپس لوٹی تھی۔

•19 نومبر کو عمران خان نے کہا تھا کہ وہ پاناما لیکس کے معاملے پر سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ قبول کریں گے تاہم آٹھ دسمبر کو انھوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے اس پر تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل پر اعتراض کیا اور بائیکاٹ کا اعلان کیا۔

•پاناما لیکس کے معاملے پر بھی عمران خان نے 17 اکتوبر کو اعلان کیا کہ وە اسلام آباد شہر کو بند کریں گے۔ تاہم پھرسپریم کورٹ کی جانب سے کمیشن بنانے کے فیصلے کے بعد دو نومبرکو انہوں نے فیصلہ بدل دیا اور یومِ تشکر منایا۔

• 18دسمبر سنہ 2014 کو عمران خان نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف چار ماہ سے زائد عرصے تک اسلام آباد میں جاری رہنے والے دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم اس کی وجہ انھوں نے پشاور کے آرمی پبلک سکول کا سانحہ بتائی ۔

•اسی دھرنے کی ابتدا میں ہی 18 اگست کو عمران خان نے عوام کو سول نافرمانی کی کال بھی دی تھی لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا۔

•پی ٹی آئی کے سربراہ نے اپنی جماعت میں انتخابات کروانے کا اعلان بھی کیا لیکن پھر کور کمیٹی بنا دی۔

عمران خان حکمران جماعت کے علاوہ پیپلز پارٹی کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں.

سیاسی میدان میں فیلصوں کی تبدیلی تو ہوتی رہتی ہے لیکن ڈرون حملوں کے خلاف آواز اٹھانے والے، ملک میں امن کے لیے طاقت کے استعمال کے بجائے بات چیت کا مشورہ دینے والے، ملک سے کرپشن کے خلاف عوام کی بڑی تعداد کو اکٹھا کرنے والے عمران پر ہی دو برس سے مسلسل یو ٹرن کا ٹھپا کیوں لگ رہا ہے؟

معروف صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس کے مطابق وجہ یہی نظر آتی ہے کہ ‘عمران خان جب فیصلے کا اعلان کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ ان کا آخری فیصلہ ہوگا لیکن جلدی جلدی میں کیے جانے والے ان فیصلوں کو وہ جلد ہی واپس بھی لے لیتے ہیں۔ ‘

وە کہتے ہیں کہ عمران خان نے 2014 میں دھرنے کو پشاور سکول میں حملے کے بعد ختم کرنے کا اعلان کیا۔ وە اس فیصلے پر کنفیوژن کا شکار تھے اس سے چند ماہ قبل ہی فوج کو شمالی وزیرستان میں بھجوانے کے حق میں نہیں تھے لیکن بعد میں انہیں فیصلہ واپس لینا پڑا۔

انگریزی روزنامہ، پاکستان ٹو ڈے کے ایڈیٹر عارف نظامی کہتے ہیں کہ ‘عمران خان کے یو ٹرنز کی ایک لمبی فہرست ہے سیاست دان واپسی کا راستہ رکھتے ہیں لیکن عمران خود کو بند گلی میں کھڑا کرنے کےماہر ہو گئے ہیں۔’

‘پاناما لیکس کے بعد دھرنے اور اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کا اعلان کرنے کے بعد عمران خان کا کال واپس لے کر یوم تشکر منانا ایک بہت بڑی ناکامی تھی۔ دس لاکھ لوگوں کو اکھٹا کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔’

تاہم اینکر پرسن نسیم زہرہ اس سے اتفاق نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘عمران خان ہی ہیں جنھوں نے پاناما کا ایشو زندہ رکھا ہے اور عمران کا انداز جارحانہ ہے اور چاہے عمران فیصلے واپس لے لیں تب بھی ان کے حامی ان کے ساتھ ہی ہوتے ہیں اور تنقید کرنے والے عمران کے فیصلوں کو یو ٹرن کا نام دیتے ہیں۔’

مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران خان کی شخصیت میں جارحیت بہت زیادہ ہے۔ وہ اپنے کرکٹ کے ‘ایگریشن’ کو سیاست میں بھی لے کر آئے ہیں لیکن سیاست میں بہت تحمل کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے۔’

تاہم وە کہتے ہیں کہ ‘عمران خان کو اس ایگریشن کا فائدہ بھی ہوا ہے وہ پنجاب کے اندر بھی نواز شریف کو چیلنج کر رہے ہیں۔’

اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ پارلیمینٹ پر عدم اعتماد کا بارہا اظہار کر چکے ہیں تاہم ان کا خیال ہے کہ عمران خان اب یوٹرن لینا بند کریں گے۔

‘میرا خیال ہے عمران خان کو سیاست اور جمہوریت کا زیادہ تجربہ نہیں ہے لیکن دھیرے دھیرے انہیں زیادہ سیاسی پختگی آئے گی، ایک الیکشن لڑ کے پارٹی کا سامنے آنا معمولی بات نہیں، امید رکھنی چاہیے۔’

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے