کردار بدل گئے حالات نہیں بدلے

سانحہ پشاور پر کچھ جلی کٹی گفتگو کرنے کو دل کر رہا تھا سوچا کہ آپ دوستوں کو بھی شریک کر لوں ۔۔۔ صبح سے ٹیلی ویژن سکرینوں پر حب الوطنی کا منجن بکتا نظرآیا ایسے ایسے قادرالکلام فاطر العقل فلسفی حضرات کی گفتگو میں حب الوطنی شہادت، قربانی اور پتا نہیں کیا کیا کی وہ وہ شہادتیں اس سانحے سے متعلق سننے کو ملیں کہ بس دماغ کی بتی فیوز ہو گئی۔۔۔۔

مجھے کوئی دوست اگر یہ سمجھا دے کہ ان معصوم بچوں کا کیا کمال تھا شہادت کے حصول میں ۔۔۔ ہاں البتہ ان کی شہادت میں ان دوستوں کا حصہ مجھے بدرجہ اتم موجود نظر آتا ہے جن کے ذمہ ان کوان کو اس کچی عمر میں شہادت سے بچانا تھا۔۔۔

بڑے افسوس کے ساتھ اگر بیان کرو تو ہمارے منہ پھٹ جغادریوں کے منہ سے ایک فقرہ ایسا نہ سن سکا جس میں اس بنیادی حقیقت کی طرف نشاندہی کی گئی ہو کہ یہ سانحہ کچھ افراد کی نااہلی کی وجہ سے پیش آیا۔ اگر وہ حضرات اپنی ذمہ داری پوری کرتے تو وہ سرکاری 144اور غیر سرکاری 350 بچے یقینی طور پر شہادت سے بچ جاتے۔

کیا ان معصوم پھولوں کی شہادت کا ذمہ دار جتنا دہشت گرد ہیں اتنی ہی ذمہ داری ان احباب کی بھی نہیں جنہوں نے اس طرح کے حملوں کو روکنا تھا؟ یہ سانحہ اس قوم کی یاداشت پر ایک ذلت کا داغ ہےکہ ہم اپنے بچوں کو نہ بچا سکے اور کیا اس داغ کو ہم تمغہ بنا کر سینے پر سجا سکتے ہیں؟

آج جب شہداء کے والدین کو تمغہ شجاعت عطا فرمائے جا رہے تھے خون کھول اٹھا۔ کیا کوئی تمغہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک واپس دلا سکتا ہے۔ نہیں ۔۔۔ رہ گئی بات دہشت گردی کے خاتمے کے منجن کی تو قربان اور واری واری جاوں کے سب دانشور امن کے سوتے صرف بندوق کی نالی والے سوراخ سے دیکھ رہے ہیں۔ کیا کوئی دوست مجھ احمق انسان کو یہ بات سمجھا سکتا ہے کہ یہ ضرب عضب اور غضب کب ختم ہو گی اور کب اعلان ہو گا کہ آج کے بعد میرے اور آپ کے بچے سکول سے بخیر واپس آئیں گے؟ کب ہو گا وہ اعلان؟

کب ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانے سے فرصت ملے گی اور اپنے بچوں کو پڑھانا شروع کریں گےاور ہاں میں تو بالکل بھی اس سانحہ پشاور کو نہیں بھولا بس اپنے آپ کو تمغوں کے پیچھے چھپا لیا ہے۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے