شکستہ بوتلیں، پرانا نظام

آج یوں ہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ آج اتوار ہے چھٹی کا دن ہے کوئی خاص کام بھی نہیں یہی سوچ کر میں نے ویڈیو ویب سائٹ کھولی کہ کوئی فلم دیکھ لوں جیسے ہی میں ویب سائٹ کھولی تو سامنے ہی پاکستانی HBفلم جس پر کچھ عرصہ قبل پابندی بھی لگائی گئی تھی میرے سامنے تھی جی ہاں اس فلم کا نام "مالک” تھا۔

لیجئے ہماری جستجو میں مزید اضافہ ہوا کہ اب یہی فلم دیکھنی ہے، فلم کی کہانی مشہور زمانہ دھواں ڈرامے کے مصنف عاشر عظیم نے لکھی اور اس فلم میں لیڈنگ کردار بھی انہوں نے ادا کیا۔ فلم کے آخر میں عاشر عظیم جن کا فلمی نام اسد ہوتا ہے ایک منتخب وزیراعلی کا خون کردیتے ہیں کیونکہ وہ بد کردار ہوتا ہے، ایک بات جو مجھے سمجھ آئی کہ اس فلم میں دکھایا گیا کہ مملکت خداداد پاکستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے، ایک صحافی ہونے کے ناطے میں نے اپنے مختصر سے کیرئیر میں جو میں نے پارلیمان کی راہداریوں میں گزارا اور کافی مایہ ناز سیاست دانوں کو قریب سے دیکھا مجھے فلم مالک کی کہانی نے متاثر کیا اور پھر کچھ ایسے حالات بھی دیکھے کہ کیسے سیاستدان عوام کی جان و مال کی حفاظت پر مامور پولیس پر اثر انداز ہوتے ہیں اور کچھ اتنے طاقتور بھی ہوتے ہیں جو عدلیہ سے بھی اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں اور عین اسی لمحے انصاف کا جنازہ نکل جاتا ہے۔

نہایت ہی ادب کے ساتھ کہ ہمارا عدالتی نظام یا تعزیرات کا تعین ہم نے نہیں کیا۔ جب ہمارا ملک معرض وجود میں آیا تو اس سے 12 سال قبل 1935 میں انگریز کی جانب سے تعزیرات ہند کے نام سے قوانین بنائے گئے تھے اور ہم نے بھی اسی پر اکتفا کیا اور اور کچھ ترامیم کے ساتھ اسے ملک کا قانون رہنے دیا جس کا ہمیں فائدہ یہ ہوا کہ ایک تو انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہوئی دوسرا تفتیشی نظام بھی سست ہی رہ گیا۔ وہ لوگ جو 40 یا 50 سالوں سے اپنے ایک کیس یا مقدمہ میں عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں کوئی ان سے جا کر پوچھے۔

ابھی حال ہی میں ایک 20 سال قبل شروع ہونے والے فوجداری مقدمے میں ایک انتقال کرنے والے شخص کو باعزت بری کرنے کا واقعہ سب کے سامنے ہے،

مجھے نہایت افسوس سے یہ بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ جہاں اس نظام کو درست کرنے کے لئے قانون سازی ہونی ہوتی ہے وہاں بھی سنجیدگی ندارد اگر کسی کو شک ہو تو پچھلے ہفتے کے اجلاسوں کی کاروائی دیکھ لیں کہ پاکستان کا سب سے مقدس ایوان کہلانے والا اور مقننہ اور اس کے ممبران کا رویہ کیسا تھا ۔

افسوس اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ وہ عوام جو ہر انتخابات میں سخت گرمی یا سخت سردی میں گھروں سے باہر نکل ووٹ جیسی مقدس امانت کا استعمال کر کے ایسے لوگوں کو بار بار ایوان اقتدار کی راہ دکھاتے ہیں اور یہ چالاک وعیار سیاستدان انہیں جہموریت کا درس دیکر رام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ کاہے کی جمہوریت ہے جس میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہو اور غریب عوام کا تھانوں، ہسپتالوں، چوکوں اور چوراہوں پر کوئی مددگار یا مسیحا نہ ہو۔ جمہوریت تو صرف عوام کے لیے ہے جہاں صرف عوام کی فلاح وبہبود بارے سوچا جاتا ہے اور عوام کے لیے سب کچھ کیا جاتا مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے جو بھی آتا ہے اپنا گھر بناتا ہے عزیزواقارب کو نوازتا ہے اور چھو منتر ہوجاتا ہے۔

اسی پر مجھے فیض احمد فیض صاحب کا یہ شعر یاد آیا کہ
” غلط ہے ساقی تیرا یہ نعرہ بدل گیا ہے نظام محفل

وہی شکستہ سی بوتلیں ہیں وہی ہیں ٹوٹے سے جام اب بھی”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے