پرانی باتیں چھوڑیں

سوشل میڈیا پہ آج کل پیر صاحب پگاڑا کا ایک انٹرویو گردش کر رہا ہے جس میں پیر صاحب پگاڑا کہتے ہیں کہ پاکستان انگریزوں نے بنایا ہندو مسلم فسادات انگریزوں نے کروائے_ مسلم لیگ میں وڈیروں کو انگریز نے بھیجا یہ وہ سچ ہے جسے لوگ سننا نہیں چاہتے_

میں نے جب یہ انٹرویو پڑھا تو مجھے باچا خان ولی خان اور قوم پرست لوگ یاد آئے جو عمر بھر یہ باتیں کہتے رہے انہیں تو ہم نے غدار اور بھارت کا ایجنٹ کہا لیکن پیر صاحب پگاڑا ہمیشہ خود کو جی ایچ کیو کا نمائندہ کہتا رہا_ کبھی کسی نے انہیں غدار نہیں کہا_ یہ فرق کیوں ہے مجھے آج تک اسکی سمجھ نہیں آئی_ اگر آپکو سمجھ آئی تو مجھے بھی آگاہ کیجئے گا _

ایک سوال مزید ذہن میں یہ آیا کہ ابھی یہ انٹرویو دوبارہ کیوں چلایا گیا ؟ کیا کچھ کچھ زیادہ ہی سچ بولنے لگ گئے ہیں؟
وہ دنیا پہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان انگریز نے بنایا تھا اور اسے اس خطے میں ایک کالونی کی ضرورت تھی؟

پتا نہیں 70 سال تک یہ لوگ کہاں سوئے ہوئے تھے؟ آج تک پاکستان میں لکھی گئی خود ساختہ تاریخ پر اس طرح پکا یقین بنائے رکھا جس طرح (نعوذباللہ)قرآن کا حرف ہو اور اس میں غلطی کی گنجائش نہیں، ہم میں سے اکثریت نے نہ کبھی اصل تاریخ سے آگاہی حاصل کی او نہ کبھی ان لوگوں کو جاننے کی کوشش کی جنہوں نے انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد کی اور قربانیاں دیں ہر وہ انسان جو تھوڑا سا بھی شعور رکھتا ہے اور نصابی کتب کے علاوہ آزادی کے دور کی کو ئی ایک آدھ کتاب پڑھ رکھی ہو اور اس کے بعد امریکہ کے ٹاؤٹ حکمرانوں اور اشرافیہ کے کردار سے آگاہ ہوتو اس کے سامنے دودھ کادودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے،

میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ سے آگاہی لازم ہے چاہے وہ کتنی بھی بھیانک کیوں نہ ہو ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ ہم نے کس طرح اپنے ہاتھوں سے بنگال میں دو قومی نظریے کو بحر ہند میں غرق کیا اور کس طرح اسلام کے نام پر حاصل کی گئی اس ریاست میں ہم اسلام کا مذاق اڑایا اور اسلام کے نام کو صرف اقتدار کی طوالت اور آقاؤں کی خوشنودی کے لیے استعمال کرتےرہے. کبھی دوسروں کی جنگ کو جہاد کا نام دے کر اپنے بچے مرواتے رہے اور کبھی بیرونی مفاد پورےہونے پر یہی جہادی دہشتگرد ٹہراتے رہے، مگراس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ ہم تاریخ اور گذری غلطیوں سے تو آگاہی حاصل کر لیں مگر موجودہ وقت کی سازشوں سے بے خبررہیں یہ سب سچائیاں ہیں اور ان سے آنکھیں بند کرنے کی بجائے ہمیں ان سے سبق سیکنا چاہیے،

بہرحال وہ باتیں قصہ پارینہ ہو چکی ہیں حالات بدل چکے ہیں_ خطے میں تبدیلیاں آ رہی ہیں ہم امریکہ کے پنجوں سے نکل رہے ہیں_ اب کچھ کچھ فیصلے خود کرنے لگ گئے ہیں پرانے اتحاد ختم ہو رہے ہیں اکنامک کوریڈور بن رہا ہے ہم معاشی ترقی کی طرف جا رہے ہیں ہم چائینہ کےعلاوہ اپنے سابقہ دشمن روس کے بھی قریب ہو گئے ہیں خطہ بدل رہا ہے شاید قدرت کو بھی رحم آگیا ہے اس نے مظلوموں کی سن لی ہے اب ہمیں آگے کی طرف بڑھنا ہو گا سبھی کو مل کر اس ملک کی ترقی میں حصہ ڈالنا ہو گا ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہو گا غدار اور محب وطن کی اصطلاحیں ترک کرنا ہونگی ، جب ہم ایک ہو جائیں گے تو اللہ ہمیں ٹھنڈی چھاؤں نصیب کرے گا_

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے