چور ،چور کاشور اور بس

جس طرح ایک شاطر چور ہجوم میں شامل ہوکر اور چور چور کا شور مچا کرخود بچ جاتا ہے اور ہجوم ہاتھ ملتا ہوا واپسی کی راہ لیتا ہے بالکل یہی طریقہ کار ہمارے تمام سیاستدانوں نے اپنا رکھا ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما،مسلم لیگ ن کی حکومت اور اراکین پر کرپشن اور اقرباپروری کے الزامات لگارہے ہیں تو مسلم لیگ ن کے بڑے بڑے نام فرماتے ہیں کہ وہ بچہ پارٹی کو وضاحت دینے کے لئے تیار ہیں تو کبھی فرمانے لگتے ہیں کہ کسی کی ماں کا نام بھی پانامہ لیکس میں ہے اور جرات کرکے ان کو یہ کیس بھی عدالت میں لے کر جانا چاہئے ۔اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے لئے تو پارٹی رہنماوں کے علاوہ دیگرتمام پارٹیوں کے اراکین کرپٹ ہیں ۔

موقع محل ہو، نہ ہو لیکن وہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو لتھاڑنے سے نہیں چوکتے اور گاہے بگاہے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں خصوصی طور پر پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سمیت دیگر لیڈران عالی مرتبت پر بھی کرپشن کے الزامات لگاتے رہتے ہیں تاہم اب تو مفاہمت کے بادشاہ اور جمہوریت کے چیمپئن جناب آصف علی زرداری بذات خو د دوبئی سے وطن واپس تشریف لایا چاہتے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ دنوں اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی موجودگی میں پیپلزپارٹی آسانی سے اپنے چار مشہور زمانہ مطالبات حکومت سے منوا سکے گی (ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی کے چار مطالبات عوام کے سامنے کچھ اور ہیں جبکہ پس پردہ کچھ اور ہیں جن سرفہرست کرپشن اور دہشت گردوں کو علاج کی سہولت فراہم کرنے کے الزام میں قید سابق مشیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کی رہائی ہے)۔

عوامی نیشنل پارٹی کے اراکین، پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اور وزیراعلی پرویز خٹک کو کرپٹ قرار دیتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے رہنما ،اے این پی دور حکومت میں کی گئی کرپشن کے الف لیلوی قصے لے کر بیٹھ جاتے ہیں تاہم کرپشن روکنے کے لئے کوئی بھی سنجیدگی سے قانون سازی کا نہیں سوچ رہا اور جو موجودہ قوانین ہیں ان کی موجودگی میں تو کرپشن اور بھی آسان ہوگئی ہے یعنی نیب کے پلی بارگین قانون کی موجودگی میں آپ 50کروڑ کی کرپشن کرلو،نیب کو 4,5کروڑ واپس کرکے دودھ کے دھلے بن جاو۔(یہی طرز عمل باقی سیاسی جماعتوں نے بھی اپنا رکھا ہے)۔

نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں کئی سیاستدانوں،بیوروکریٹس اور اعلی افسران کے خلاف انکوئری روکنے کا فیصلہ کیا گیاہے ۔اسی اجلاس میں وزارت خزانہ بلوچستان کے سابق سیکرٹری مشتاق رئیسانی اور سابق مشیر خزانہ بلوچستان میر خالد لانگو کی جانب سے پلی بارگینگ کی درخواست منظور کرلی گئی اور اجلاس کے بعد جاری کئے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مشتاق رئیسانی رضاکارانہ طور پر نیب کو دو ارب روپے ادا کریں گے۔اسی طرح کچھ عرصے قبل سابق وزیر اعلی خیبرپختونخوا امیر حیدر خان ہوتی کے پرسنل سیکرٹری سید معصوم شاہ باچہ بھی نیب کو پچیس کروڑ روپے کی ادائیگی کے بعد رہا ہوئے(یہ تو چند مثالیں ہیں ورنہ نیب سے دودھ کا دھلا ہونے کاسرٹیفیکیٹ حاصل کرنے والوں کی تعداد اندازوں سے بھی زیادہ ہے) ۔

نیب کے پلی بارگین کے ہوتے ہوئے کوئی مائی کا لعل بھی کرپشن کو ختم نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی کرپٹ سیاستدان ،بیوروکریٹ یا اعلی افسر پر ہاتھ ڈال سکتا ہے ۔جتنا آپ میں اور آپ کی کرسی میں طاقت ہے اُتنی کرپشن کرتے جائیے ،محفلوں میں ملکی حالات ٹھیک نہ ہونے ،ہر کام میں کرپشن اور اقربا پروری کا رونا بھی روتے جایئے اورپاکستان کو کوستے جایئے کہ دیکھیں یہ بھی کوئی ملک ہے جو ٹھیک ہونے کا نام نہیں لیتا۔پولیس افسران نجی محفلوں میں دہائیاں دیتے پھرتے ہیں کہ ہر طرف دہشت گردی کا بازار گرم ہے ۔کسی کی جان ومال اور عزت محفوظ نہیں اس لئے میں تو اپنے بچوں کو دوبئی ،لندن یا کسی اور مغربی ملک شفٹ کرنے کا سوچ رہا ہوں۔(وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان سمیت زیادہ تر حکومتی اراکین کی فیملیز بیرون ملک مقیم ہیں )حالانکہ ملک میں امن و امان قائم رکھنا اسی وزیر داخلہ اور انہیں پولیس افسر ان کی ذمہ واری ہے ۔اسی طرح نیب والے بھی کرپشن کا رونا روتے ہیں تاہم کرپشن کی جڑ انہوں نے اپنے پاس پلی بارگین کی صور ت میں محفوظ کر رکھی ہے۔

(عدالت عظمی کی جانب سے بھی صرف اشارے پر اکتفا کیا گیا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سپریم کورٹ چیئرمین نیب قمر زمان چوھردی کو بلا کر فوری طور پر پلی بارگیننگ کے قانون کو کالعدم قرار دیتی اور اس قانون کے تحت جتنے بھی سیاستدانوں، بیوروکریٹ اور اعلی افسروں نے دودھ کا دھلا ہونے کا سرٹیفیکیٹ حاصل کیا ہے ،ان کو قرار واقعی سزا کے ساتھ ساتھ تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی ضبطگی کی سزا دیتی )یہ تو جملہ معترضہ تھا جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے (عدلیہ کے معاملے میں بولنے پر پیشگی معذرت )۔

پلی بارگین کے ہوتے ہوئے شاطر چورکا طریقہ اپنانے کی بھی ضرورت نہیں بس اس کے لئے صرف بہت ساری کرپشن کی ضرورت ہے کیونکہ نیب چھوٹے موٹے کرپشن پر پلی بارگین نہیں کرتا اورآپ کو جیل کی ہوا کھانے کے ساتھ ساتھ کرپشن سے کمائے ہوئے پیسوں سے زیادہ خرچ بھی کرنا پڑ سکتے ہیں اس لئے خیال رکھیئے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے