اسرائیل فلسطین میں بستیوں کی تعمیر بند کرے: اقوام متحدہ

نیو یارک: اقوام متحدہ(یواین)کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کی زمین پر بستیوں کی تعمیر کے خلاف قرارداد منظور کرلی، جس میں اسرائیل سے بستیوں کی تعمیر ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس قرارداد کی منظوری میں امریکا نے حصہ نہیں لیا۔

سلامتی کونسل میں قرارداد کو پیش کیے جانے کے وقت عالمی سفارتکار اوباما انتظامیہ کی جانب سے خوف زدہ تھے مگر امریکا نے ووٹنگ سے پرہیز کرتے ہوئے قرارداد کو منظور کرنی کی اجازت دی۔

قرارداد کے لیے 14 ممبر ممالک نے ووٹ دیے جب کہ قرارداد کو تالیاں بجاکر منظورکیا گیا۔

خیال رہے کہ سلامتی کونسل کی جانب سے گزشتہ 8 سال کے بعد فلطسینیوں اور اسرائیل سے متعلق کوئی قرارداد پاس کی گئی ہے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے قرارداد کی منظوری کے بعد لکھا کہ امریکا نے اسرائیل کو پیش کی جانے والی اپنی روایتی سفارتی خدمات کے اصولوں کو توڑتے ہوئے اس بار ویٹو کا حق استعمال نہیں کیا اور نہ ہی نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل کا دباؤ برداشت کیا۔

اسرائیلی بستیوں کے خلاف منظور کی جانے والی قرارداد سلامتی کونسل کے ممبران نیوزی لینڈ، ملائیشیا، وینزویلا اور سینیگیال کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔

اس سے قبل مصر کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد اسرائیلی اور امریکی دباؤ پر واپس لی گئی تھی،اسرائیلی حکومت اور ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی انتظامیہ پر قرارداد کو ویٹو کرنے کے لیے زور دیا تھا۔

اسرائیل مخالف قرارداد میں امریکا کی جانب سے ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کو براک اوباما کی جانب سے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے درمیان کشیدہ تعلقات کو ثابت کرنے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔

براک اوباما کا خیال تھا کہ اسرائیلی بستیاں امن کوششوں میں بڑی رکاوٹ ہیں اس لیے بالآخر انہوں نے ووٹںگ میں حصہ نہ لے کر اس بات کو ثابت کردیا۔

قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل فوری طور مقبوضہ فلسطین کی زمینی حدود سمیت مشرقی یروشلم میں بستیوں کی تعمیرات بند کرے۔

قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے یہودیوں کے لیے تعمیر کی جانے والی بستیوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور یہ کوششیں عالمی قوانین کی عین خلاف ورزی ہیں۔

قراداد کی منظوری کے لیے 9 ووٹ مطلوب تھے، قراداد کی منظوری کے لیے امریکا، برطانیہ، فرانس روس اور چین کے ووٹوں کی ضرورت نہیں تھی۔

فلسطینی مغربی کنارے،غزہ اور مشرقی یروشلم کو آزاد ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں،ان علاقوں پراسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد قبضہ کرلیا تھا۔

اسرائیل کا موقف ہے کہ بستیوں کی تعمیرات سے متعلق حتمی فیصلہ بھی ان مذاکرات میں حل کیا جائے گا جب فلسطین کی خودمختاری کے مذاکرات کیے جائیں گے.

[pullquote]اقوام متحدہ کی اسرائیلی بستیوں کے خلاف قرارداد شرمناک ہے: بنیامن نیتن یاہو
[/pullquote]

صدر محمود عباس کے ترجمان نے اس قرار داد کو ‘اسرائیلی پالیسی کے لیے زبردست دھچکا’ قرار دیا ہے. اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے غربِ اردن میں غیر قانونی بستیوں کے قیام کے خلاف قرارداد کو ’شرمناک‘ قرار دیا ہے۔

وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل جمعے کو ہونے والے 15 رکنی سکیورٹی کونسل کے ووٹ کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا۔

اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل اقوام متحدہ میں اس شرمناک اور اسرائیل مخالف قرارداد کو مسترد کرتا ہے اور اس کا پابند نہیں رہے گا۔‘
ادھر فلسطین کے صدر محمود عباس کے ترجمان نے اس قرار داد کو ’اسرائیلی پالیسی کے لیے زبردست دھچکا‘ قرار دیا ہے۔

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیل کی جانب سے غربِ اردن میں غیر قانونی بستیوں کے قیام کے خلاف ایک قرارداد منظور کی ہے۔
سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک میں سے 14 نے اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالے جبکہ امریکہ نے ووٹ ڈالنے سے انکار کر دیا۔ تاہم امریکہ نے اس موقعے پر قرارداد کے خلاف ویٹو کا حق بھی استعمال نہیں کیا۔

ماضی میں امریکہ نے ایسی قراردادوں کو ویٹو کر کے اسرائیل کی مدد کی ہے۔ تاہم اوباما انتظامیہ نے روایتی امریکی پالیسی چھوڑ کر اس مرتبہ اس قرارداد کو منظور ہونے دیا ہے۔

یاد رہے کہ یہ قرارداد مصر کی جانب سے پیش کی گئی تھی تاہم گذشتہ چند روز میں امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کے بعد مصر نے اسے موخر کر دیا تھا۔ اس کے بعد سلامتی کونسل کے دیگر ممالک نیوزی لینڈ، سینیگال، وینزویلا، اور ملائیشیا نے اس قرارداد کو دوبارہ پیش کیا اور اسے منظور کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ادھر اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے اس قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اس میں طے کی گئی شرائط پر عمل نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر اس قرارداد کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے پرامید ہے۔

فلسطین کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ صائب اراکات نے اس قرارداد کو بین الاقوامی قانون کی فتح اور اسرائیل میں شدت پسند عناصر کی شکست قرار دیا۔

قرارداد میں اسرائیل کو کہا گیا ہے کہ وہ غربِ اردن اور مشرقی یروشلم میں بستیوں کی تعمیر روک دے.

غربِ اردن میں اسرائیل کی جانب سے تعمیر کردہ یہودی بستیاں فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان ایک انتہائی متنازع موضوع ہے جسے خطے میں قیامِ امن کے لیے اہم رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔

یہ پہلا موقعہ نہیں جب اسرائیل کی جانب سے تعمیر کردہ یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہو۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے علاوہ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، اور بین الاقوامی ریڈ کراس بھی انھیں غیر قانونی قرار دے چکی ہیں۔

1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے اسرائئل نے غربِ اردن اور مشرقی یروشلم میں تقریباً 140 بستیاں تعمیر کی ہیں جن میں پانچ لاکھ کے قریب یہودی باشندے رہتے ہیں۔

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سمینتھا پاول نے اس موقعے پر کہا کہ یہ قرارداد زمینی حقائق کی عکاسی کرتی ہے کہ بستیاوں میں اضافے کی رفتار تیز ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بستیوں کا مسئلہ اس قدر بدتر ہو چکا ہے کہ اب یہ دو ریاستی حل کے لیے خطرہ ہے۔

انھوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی بستیوں میں اضافے اور دو ریاستی حل، دونوں کو اپنا موقف نہیں رکھ سکتا۔
تاہم انھوں نے کہا کہ امریکہ نے قرارداد کے حق میں اس لیے ووٹ نہیں ڈالا کیونکہ اس کی توجہ صرف بستیوں پر ہی مرکوز ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے