جمعیت ۔۔۔جو میں نے دیکھا

اسلامی جمعیت طلبہ کے یوم تاسیس کے موقع پر یہ سوال دامن گیر ہے کہ جمعیت نے اس قوم کو کیا دیا؟آپ چاہیں تو اس سوال کو یوں بھی پڑھ سکتے ہیں کہ طلباء تنظیموں نے اس قوم کو کیا دیا؟

کردار اور سیرت کی بات تو رہنے ہی دیں ، یہ حضرت اورنگزیب عالمگیر کی داستان پارسائی نہیں کہ ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ قبلہ شہنشاہ معظم نے نہ کوئی نماز چھوڑی نہ کوئی بھائی چھوڑا، محض اس لیے خاموش رہیں کہ شائد گستاخ انگریز مؤ رخ نے شاہ معظم کی کردار کشی کی ہو۔جمعیت کی کہانی کسی مورخ کے ذریعے ہم تک نہیں پہنچی، یہ تو ہمارے عہد کا جبر ہے، جسے ہم نے آنکھوں سے دیکھا اور جسے برداشت کرتے کرتے ہماری حسیات لہو ہو گئیں۔زمانہ طالبعلمی میں ، میں نے ان طلباء تنظیموں اور ان کے طریقہ واردات کو اتنے قریب سے دیکھا ہے کہ انکی اصلیت سے میں خوب آ گاہ ہوں اور شرح صدر سے کہ سکتا ہوں کہ طلباء تنظیمیں تعلیمی اداروں میں بدترین گھٹن اور فسطائیت کی ایک نشانی ہیں۔ اول اول ان کی ہم نصابی سر گرمیوں پر سوالات اٹھتے تو ہمارے بزرگ ٹھنڈی آہ بھر کر کہتے : جمعیت اپنی قدروں سے دور ہوتی جا رہی ہے۔لیکن جیسے جیسے شعور پختہ ہوتا گیا معلوم یہ ہوا کہ معاملہ قدروں سے دوری کا نہیں،خرابی اس کے وجود میں ہے۔سچ کہنے کی ہمت پیدا کرنی چاہیے اور سچ یہ ہے کہ جمعیت قائم ہی نہیں ہونی چاہیے تھی۔اس موقف کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اس ملک کے تعلیمی اداروں میں کوئی طلبہ تنظیم نہیں ہونی چاہیے۔

جمعیت ہو یا اسلامی انقلاب کے لیے بنائی گئی کوئی اور طلباء تنظیم ۔۔۔۔کسی کا وجود باعثِ خیر نہیں۔سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ چونکہ کمیونسٹ انقلاب کی داعی طلباء تنظیمیں ویسے ہی جاں بحق ہو گئیں اس لیے ان کا ذکر یہاں غیر ضروری ہے ورنہ نوعیت کے اعتبار سے ان کا وجود بھی اتنا ہی خوفناک تھا جتنا ان موجود انقلابی تنظیموں کا۔طلباء تنظیمیں ایک مافیا کا روپ دھار چکی ہیں۔یہ ہاسٹلوں پر قبضے کی جنگ کرتی ہیں،ہاسٹل کے میس چلانے پر ان میں جھگڑے ہوتے ہیں، کیونکہ میس چلانے میں معیشت کے امکانات چھپے ہوتے ہیں،تعلیمی اداروں میں ان کی وجہ سے انڈر ورلڈ کا ماحول رہتا ہے اور مختلف تنظیموں کے ناظم اور صدور اس دنیا کے ڈان ہوتے ہیں۔چندے کے نام پر بھتہ لیا جاتا ہے، جو بھتہ نہ دے مختلف طریقوں سے اس کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے،ان کے بنائے اصولوں پر چلنے سے انکار آپ کو کسی آرتھوپیڈک سرجن کے پاس بھجوا سکتا ہے۔

اب معاملہ یہ ہے کہ تعلیمی ادارے آزادانہ غوروفکر اور علمی سرگرمیوں کا مرکز ہوتے ہین لیکن آپ کو اچانک علم ہوتا ہے کہ بھائی پھیرو سے تعلق رکھنے والے جو نئے نئے ساتھی بھائی ناظم بھائی بنے ہیں ان کا حکم ہے کہ ہاسٹلوں میں ٹی وی رکھنا حرام ہے تو آپ سوچتے ہیں کیا ہم ایک آزاد ریاست کے شہری ہیں۔مجھے آج بھی یاد ہے میں اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں جب پڑھتا تھا تو ہمیں کرکٹ میچ دیکھنے باہر مارکیٹ جانا پڑتا تھا ۔یونیورسٹی کے نائب صدرڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم وفاقی وزیر مذہبی امور بنے اور مدارس کو کمپیوٹر رکھنے کے درس دینے لگے تو میں نے ان سے عرض کی قبلہ مدارس کو تو آپ کمپیوٹر دے رہے ہیں لیکن اپنی یونیورسٹی میں آپ ہمیں ٹی وی روم نہیں بنانے دیتے۔تب پتا چلا کہ یہ پابندی یونیورسٹی نے نہیں جمعیت نے لگائی ہوئی تھی۔کرکٹ ٹورنامنٹ کرانا ہوتا تھا تو اجازت یونیورسٹی سے نہیں بھائی لوگوں سے لینی پڑتی تھی۔اور اگر آپ ناظم بھائی کو تقریب تقسیم انعامات میں مہمان خصوصی نہیں بناتے تھے تو ’’ اسلام‘‘ خطرے میں پڑ جاتا تھا اور’’ اسلام‘‘کے سپاہی آپ پر چڑھ دوڑتے تھے۔

افطار پارٹی اور محفل حمد و نعت پر ہم نے خون بہتا دیکھا کیونکہ ناظم صاحب سے ان سرگرمیوں کی پیشگی اجازت نہیں لی گئی تھی۔تصادم سے اگلی صبح جب ہم لوگ سو کر اٹھے تو ماحول سوگوار تھا۔معلوم ہوا کہ جمعیت نے انجمن طلباء اسلام کے ایک لڑکے کو رات ہاسٹل سے اٹھایا اور لان میں لا کر مارا۔خون کی ایک لکیر ہم نے خود دیکھی۔ اس کے نازک حصوں کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا اور اس حسن سلوک کا جو سب سے دردناک پہلو تھا وہ یہ تھا کہ اس لڑکے پر تشدد اسی کے کلاس فیلوز سے کروایا گیا کہ یہ ناظم بھائی جان کا حکم تھا۔ کویت ہاسٹل کے وارڈن قابو میں نہ آئے تو ان کا جنسی سیکنڈل بنا دیا گیا حالانکہ سب خوب آ گاہ تھے کہ ان کو ملنے آنی والی خواتین ان کی ماں اور بہنیں تھیں۔طلباء اپنے کمروں میں بیٹھ کر ان ڈور گیمز کھیل سکتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ بھی ناظم بھائی کیا کرتے تھے۔۔۔۔

اس خوفناک گھٹن کے عینی شاہد ہونے کے سبب میں نے ایک رخ پیش کیا ہے ورنہ شواہد موجود ہیں کہ یہ رویے صرف جمعیت کے ساتھ خاص نہیں ،جہاں جو طلباء تنظیم طاقت میں ہے اس کا یہی رویہ ہے۔جامعہ پنجاب ہو اسلامی یونیورسٹی بہاولپور، کردار مختلف ہیں کہانی ایک جیسی ہے۔جس کا جہاں قبضہ ہے وہاں اس کی حکومت ہے۔پنجاب یونیورسٹی میں عمران خان نہیں آ سکتے کیونکہ تعلیمی ادارے یرغمال بن چکے ہیں۔عمران خان کے ساتھ بھائی لوگوں نے جو کیا اس کے بعد کیا ہماری آنکھیں کھلنے کے لیے کوئی سیلاب بلا آنا باقی تھا؟

تعلیمی اداروں میں خالصتا علمی سرگرمیوں کے احیاء اور آزادانہ فکری ماحول کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ان طلباء تنظیموں کو ختم کیا جائے جنہوں نے تشدد کو پالیسی بنا رکھا ہے۔اگر یہ تنظیمیں اتنی ہی مبارک ہیں تو سوال یہ ہے کہ ان کا وجود فروبل، بیکن ہاؤس اور ان دیگر تعلیمی اداروں میں کیوں نہیں جہاں اشرافیہ کے بچے پڑھتے ہیں؟ جہاں متوسط طبقہ اپنے بچے پڑھاتا ہے یہ جہنم صرف ان اداروں میں کیوں سلگ رہا ہے؟کیا اس لیے کہ اہلِ سیاست کو ان اداروں سے بے گار میں کارکنان مل جاتے ہیں؟حیرت اس وقت ہو تی ہے جب جماعت اسلامی کے احباب پرائیویٹ تعلیمی ادارے قائم کرتے ہیں اور وہاں طلباء تنظیموں پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔اگر یہ تنظیمیں اسلامی انقلاب کے لیے اتنی ہی ضروری ہیں تو پھر اپنے کاروباری اداروں میں بھی انہیں کام کرنے دیجیے۔یہ دو عملی اور دورنگی کیوں؟

جب جب یہ سوال اٹھتا ہے کہ طلباء تنظیموں نے قوم کو کیا دیا؟ جواب آتا ہے سیاسی قیادت دی۔فرید پراچہ اور لیاقت بلوچ دیے،منور حسن اور احسن اقبال دیے، محمد علی درانی دیے۔ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ اب اس جواب پر ہنسا جائے کہ رویا جائے؟اس دلیل کی سادگی پہ قربان جانا چاہیے یا اس منطق کی وجاہت اور مرتبے پر صدقے جانا چاہیے؟اگر یہی کچھ دینا تھا تو اس کے لیے اتنے تردد کی کیا ضرورت تھی؟کوئی ابوالاعلی کے پائے کا آدمی پیدا کیا ہوتا یا کوئی خرم مراد جیسی شخصیت ہی دی ہوتی تو کوئی بات ہوتی۔

ہم کب تک اپنے تعلیمی اداروں کو مختلف طلباء تنظیموں کے ناتراشیدہ قائدین اور کارکنان کے رحم و کرم پر چھوڑے رہیں گے۔یاد رکھیے قوموں کا مستقبل اس کے تعلیمی اداروں میں تشکیل پاتا ہے اور ہمارے تعلیمی اداروں کا حال یہ ہے کہ وہاں آزادانہ فکری کام ممکن ہی نہیں ۔آپ کے وجود، آپ کی شخصیت اور آپ کی سرگرمیوں پر ناظمین کے پہرے ہیں۔آپ کو پیپسی پینے کی اجازت ہے یا آپ نے امرت کولا پینا ہے ،اس کا فیصلہ آپ نے نہیں کسی اور نے کرنا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے