وفاقی وزیر خواجہ آصف بھی جعلی خبر کا شکار

ایک جھوٹی خبر کس حد تک اثرانداز ہوسکتی ہے اس کا مظاہرہ تین ہفتے قبل واشنگٹن کے دیکھا جب ایک شخص ایک جھوٹی خبر کے ردعمل میں ایک پیزا ریستوران میں فائرنگ کر دی۔ اطلاعات کے مطابق اس واقعے میں کسی کو نقصان نہیں پہنچا اور پولیس نے مسلح شخص کو حراست میں لے لیا۔
اسی طرح حال ہی میں منعقدہ امریکی انتخابات میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کر جھوٹی خبروں کی اشاعت کا معاملہ سامنے آیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ ان سے امریکی ووٹروں کی رائے عامہ میں تبدیلی ہوئی۔
جھوٹی خبروں اور اس کے ردعمل کے طور پر کوئی بیان جاری کرنے یا کوئی قدم اٹھانے کا معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ اس کے حالیہ شکار پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف بنے ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ کیا اسرائیل بھول گیا ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔
وزیر دفاع نے یہ بیان اسرائیل کے وزیر دفاع کے مبینہ بیان کے جواب میں دیا۔

منگل کے روز آے ڈبلیو ڈی نامی ویب سائٹ پر شائع ایک خبر شائع ہوئی جس میں کہا گیا ‘اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اگر پاکستان نے کسی بھی بہانے سے شام میں زمینی فوج بھیجی تو ہم اس ملک کو ایٹمی حملے میں تباہ کر دیں گے۔’
اس خبر کے مطابق اسرائیل کے سابق وزیر دفاع موشے یالون نے پاکستان کو دھمکی دی۔
اے ڈبلیو ڈی میں شائع ہونے والی کہانی کے مطابق یالون نے مزید پاکستانی فوج کی شام میں آمد کے حوالے سے کہا ‘جہاں تک ہمارا تعلق ہے یہ ایک دھمکی ہے اور اگر بدقسمتی سے وہ شام میں آتے ہیں تو ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ ہم ان کو ایٹمی حملے میں تباہ کردیں گے۔’
اس ‘دھمکی’ کے جواب میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ‘اسرائیلی وزیر دفاع نے پاکستان کے شام میں داعش کے خلاف کردار پر قیاس آرائی کرتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی۔ اسرائیل بھول رہا ہے کہ پاکستان بھی جوہری صلاحیت رکھتا ہے الحمداللہ۔’
تاہم اسرائیلی وزارت دفاع نے ٹوئٹ میں خواجہ آصف کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا ہے ‘جو بیان سابق وزیر دفاع یالون کے حوالے سے نشر کیا گیا ہے وہ کبھی دیا ہی نہیں گیا۔’

ایک اور ٹوئٹ میں اسرائیلی وزارت دفاع نے ایک بار پھر خواجہ آصف کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا ہے ’خواجہ آصف جس رپورٹ کا ذکر کر رہے ہیں وہ بالکل من گھڑت ہے۔’
تاہم واضح رہے کہ موشے یالون اسرائیل کے وزیر دفاع نہیں ہیں۔ ان کو عہدے سے مئی میں ہٹا دیا گیا تھا اور ان کی جگہ لائیبرمین کو مقرر کیا گیا ہے۔
حال ہی میں فیس بک پر غلط خبروں کے معاملے پر تنازع اس وقت کھڑا ہوا تھا جب بعض صارفین نے کہا کہ فیس بک پر پھیلنے والی بعد غلط خبریں امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج پر اثرا انداز ہوئی ہیں۔
خیال رہے کہ کچھ اعداد و شمار سے یہ امر سامنے آیا تھا کہ کچھ جعلی خبریں فیس بک پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی تھی جبکہ ان کی تردید زیادہ شیئر نہیں ہوئی۔
خیال رہے کہ انٹرنیٹ پر نقلی خبروں پر نظر رکھنے والی ایک ویب سائٹ mediabiasfactcheck.com کے مطابق انٹرنیٹ پر کئی ایسی ویب سائٹس ہیں جو نقلی خبریں پھیلاتی ہیں۔
‘ایسی ویب سائٹس یہ غلط خبریں چھاپتی ہیں جن کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ ان ویب سائٹس پر خبریں قیاس آرائیوں پر مبنی ہوتی ہیں۔’

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے