امریکہ نے سات پاکستانی کمپنیوں پر پابندی عائد کر دی

امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ تمام ادارے مبینہ طور پرامریکہ کی قومی سلامتی یا خارجہ پالیسی کے مفادات کے برعکس کام کر رہے ہیں۔
اسلام آباد —
امریکہ کی حکومت نے پاکستان کے میزائل پروگرام سے مبینہ طور پر منسلک سات سرکاری اور غیر سرکاری اداروں پر تعزیرات عائد کر دی ہیں۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ تمام ادارے مبینہ طور پرامریکہ کی قومی سلامتی یا خارجہ پالیسی کے مفادات کے برعکس کام کر رہے ہیں۔

امریکی محکمہ کامرس کے ایک اعلان کے مطابق ان کمپنیوں کے نام ایکسپورٹ ایڈمنسٹریشن ریگولیشنز "ای اے آر” کی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں۔

امریکی محکمہ کامرس کے اعلانیہ میں کہا گیا ہے کہ مخصوص حقائق کے بنا پر اس بات پر یقین کرنے کا معقول جواز ہے کہ پاکستان کے یہ سرکاری، نیم سرکاری اور نجی ادارے ان سرگرمیوں میں مبینہ طور پرملوث ہیں جو امریکہ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے مفادات کے خلاف ہیں۔

امریکہ کی طرف سے جن سات کمپنیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں تین کے سوا باقی سب غیر معروف ہیں۔

اگرچہ پاکستان کی طرف سے ان نئی امریکی پابندیوں پر کوئی ردعمل تو سامنے نہیں آیا ہے تاہم پاکستان ہمیشہ سے اپنے جوہری اور میزائل پروگرام سے منسلک کسی غیر قانونی سرگرمی سے انکار کرتا رہا ہے۔

پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جن کمپنیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں سرکاری ادارے ایئرویپن کمپلیکس (اے ڈبلیو سی) میری ٹائم ٹیکنالوجی کمپلیکس (ایم ٹی سی) اور نیشنل انجینئرنگ اینڈ سائنٹیفک کمیشن (نیسکام ) بھی شامل ہیں جو ملکی دفاع کے کام میں خود انحصاری سے مصروف عمل ہیں جس میں پاکستان کا میزائل پروگرام بھی شامل ہے۔

"ہم اپنے دفاع کے لیے کام کر رہے ہیں کچھ چھپا نہیں رہے ہیں ہم اپنے ریسرچ پیپرز کو شائع کرتے ہیں اور پاکستان میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے مغرب سے ایروسپیس کے سائنسدان آتے ہیں اور ہماری کانفرنسوں میں شریک ہوتے ہیں۔۔۔ہمارا کھلا پروگرام ہے اور اپنے دفاع کے لیے کام کرنا ہر ایک (ملک) کا حق ہے”۔

بین الاقوامی امور کے معروف تجزیہ کار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے میزائل پروگرام سے متعلق پہلے بھی اس طرح کی پابندیاں عائد کی جاتی رہی ہیں۔

"اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ (پاکستان) میزائل (پروگرام ) کے لیے بہت کم ٹیکنالوجی امریکہ سے حاصل کرتا ہے لیکن یہ بات ہے کہ تھوڑی بہت جو تجارت وہاں سے ہوتی ہے یا ان کا خیال ہے کہ سامان یہاں (امریکہ) سے جاتا ہے اور اپنی تکنیکی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے یہ اقدام کیے ہیں۔”

حسن عسکری نے کہا کہ اگرچہ اس اقدام پر عملی طور پر پاکستان کے میزائل پروگرام پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا تاہم انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ پاکستان کے لیے سفارتی مضمرات کا باعث بن سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے