فیس آف پاکستان (پارٹ ٹو)

اپنے وطن سے محبت کا دم تو سب ہی بھرتے ہیں ، لیکن ذاتی مفادات آڑے آتے ہیں ، محبت میں ڈنڈی ماردی جاتی ہے، اور تجوریاں بھرنے لگتی ہیں ، کبھی بدعنوانی کرکے، کبھی استحصال کرکے ، کبھی ناحق خون بہا کر۔۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے وطن سے محبت کا ثبوت اپنے علم و عمل سے دیتے ہیں ،اپنے ملک کو ہر شعبے میں ترقی یافتہ بنانا چاہتے ہیں ، خوشحالی ، امن اور محبت کا گہواراہ بنا نا چاہتے ہیں ،

کچھ ایسے بھی ہیں جو کچھ بڑا قابل ذکر تو نہیں کرپاتے ، لیکن اخلاق کی اچھائی ، اعلیٰ روایات اور بہترین عمل سے روزہ مرہ زندگی میں بہترین معاشرہ قائم کرتے ہیں ، یاکرنے کی کوشش کرتے ہیں

وہ شخصیات جنھوں نے اپنے کام سے ملک میں عروج پایا اور بیرون ملک بھی پاکستان کا نام روشن کیا، پھر حالات کے رحم وکرم پر آگئے اور بلآخر کینوس سے غائب ہوگئے،انہی میں سے چند ایک کا ذکر یہاں کریں گے جوگزشتہ سال خاموشی سے دار فانی سے کوچ کرگئے ۔

جودنیا میں مثبت پاکستان کےبہترین عکاس رہے ، جو درحقیقت فیس آف پاکستان کہلانے کے لائق ہیں، ان میں پاکستانی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری، گلوگاری، سیاست، مذہبی، قوالی، شاعری، افسانہ نگاری، سول سوسائٹی، سماجی کارکن اور کھیلوں کی دنیا کے کئی بڑے اور چھوٹے نام شامل ہیں۔
پہلے بات کھیل کے میدان سے:

یکم فروری کو کرکٹر اسرار علی کا 88 سال کی عمر میں گزشتہ کئی سال سے خاموش زندگی گزارنے کے بعدانتقال کرگئے۔انہوں نے 1947 میں اپنے کرئیر کا آغازہ کیا، اسرار علی 1952 میں عبدالحفیظ کاردار کی قیادت میں بھارت کا دورہ کرنے والی پہلی کرکٹ ٹیم کے رکن تھے۔

8 جولائی کو کرکٹر جاوید اختر75برس کی عمر میں راولپنڈی میں جہان فانی سے کوچ کر گئے۔1944 میں نئی دہلی پیدا ہونے والے میں جاوید اختر نے 1962 میں پاکستان کی جانب سے واحد ٹیسٹ میچ کھیلا، 90 کی دہائی میں انہوں نے اٹھارہ ٹیسٹ اورچالیس ایک روزہ میچز میں امپائرنگ کے فرائض بھی انجام دیئے۔

11 اگست کوعالمی شہرت یافتہ پاکستانی کرکٹر اور قومی ٹیم کے سابق کپتان حنیف 81برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ وہ ان کھلاڑیوں میں شامل ہیں جنھیں پاکستانی کرکٹ کا اولین سپر اسٹار کہا جا سکتا ہے۔ان کی بے عیب تکنیک اور ہر قسم کے حالات میں وکٹ پر لمبے عرصے تک ٹھہرے رہنے کی صلاحیت وہ خوبیاں ہیں جنھوں نے لاکھوں لوگوں کو ان کا گرویدہ بنا دیا۔ انھوں نے 55 ٹیسٹ میچوں کی 97 اننگز میں 43.98 کی اوسط سے 3915 رنز بنائے، جن میں 12 سنچریاں اور 15 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ان کی وجہ شہرت ان کی وہ طولانی اننگز ہے جو انھوں نے برج ٹاؤن میں 58-1957 کی سیریز میں کھیلی تھی۔990 منٹ پر محیط اس اننگز کا ریکارڈ آج بھی ٹیسٹ کرکٹ کی طویل ترین اننگز کے طور پر قائم ہے جس کے دوران انھوں نے 337 رنز بنائے تھے۔اس کے علاوہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں 499 رنز کا ریکارڈ ایک عرصے تک قائم رہا جسے برائن لارا نے توڑا۔حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں 1960 میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا ۔محمد حنیف کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔

14 اگست کو اسکواش پلیئرسہیل قیصر50برس کی عمر میں پھیپھڑوں کے سرطان کے باعث لاہور میں انتقال کر گئے۔ سابق اسکواش کھلاڑی سہیل قیصر نے 1982میں ورلڈ جونیئر چیمپین شپ جیتی۔سہیل قیصرورلڈ جونیئر، ورلڈ انڈر 23 چیمپئن شپ سمیت ورلڈ ٹیم ایونٹس میں گولڈ میڈل حاصل کرچکے تھے اور 1985میں ورلڈ ٹیم چیمپین شپ جیتنے والی ٹیم کے بھی رکن رہے۔

12 اکتوبر کو کھیلوں کی دنیا کی ایک اور شخصیت شہلائلہ بلوچ صرف 20سال کی عمر میں ایک کار حادثے میں انتقال کر گئیں۔فٹ بال میں ہیٹ ٹرک کرنے والی پہلی ویمن کھلاڑی شہلائلہ بلوچ گزشتہ چار سال سے پاکستان ویمن فٹبال ٹیم بلوچستان یونائیٹد کی مستقل رکن تھیں ، شہلائلا بلوچ کو پاکستان ویمن فٹبال کی بہترین دریافت اور پاکستانی میسی کہا جاتا تھا، انھوں نے 2014 میں سیف فٹ بال چیمپین شپ میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی اور بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا ،وہ ڈومیسٹک فٹ بال میں بلوچستان یونائیٹڈ ایف سی کی نمائندگی کرتی تھیں۔

کھیل کے بعدتذکرہ میڈیا انڈسٹری کے کچھ ناموں کا:

12جولائی کو پاکستان براڈ کاسٹنگ کی دنیا کی اہم شخصیت آغا ناصر 79برس کی عمر میں طویل علالت کے بعداسلام آباد میں انتقال کر گئے۔ پاکستان میں ریڈیو، ٹی وی اور فلمی صنعت سے منسلک رہنے والی معروف شخصیت آغا ناصر نے اپنے کیریئر کا آغاز 1955 میں ریڈیو پاکستان میں بحیثیت براڈکاسٹر کیا تھا، بعد ازاں وہ ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے۔1964 میں وہ پی ٹی وی سے منسلک ہوگئے جہاں بطور ہدایتکار اور پروڈیوسر کام کیا۔ وہ کچھ عرصے کے لیے پی ٹی وی کے مینیجنگ ڈائریکٹر بھی رہے،ان کی ایک تخلیق ’تعلیم بالغاں‘ کو پی ٹی وی پر نشر کیے جانے والے بہترین ڈراموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔آغا ناصر نے کل چھ کتابیں تحریر کیں ۔انھیں ان کی خدمات کے نتیجے میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

3 نومبر کو پاکستان ٹی وی پروڈیوسر یاور حیات خان 73برس کی عمر میں مختصر علالت کے بعد لاہور میں انتقال کرگئے۔ یاور حیات خان 1965سے 2004 تک پی ٹی وی سے وابستہ رہے ، ان کے کریڈٹ پر سید شبیر حسین کے تحریر کردہ ناول جھوک سیال بنا سیریل ہے جس نے عوام میں پذیرائی حاصل کی، یاور حیات خان نے اسی کی دھائی میں یادگار ڈرامہ سیریل نشیمن، دہلیز ،ساحل ،گمشدہ بھی بنائے۔

میڈیا انڈسٹری کے ساتھ فلمی دنیا کا چولی دامن کا ساتھ ہے:

پاکستان کی پنجابی اور اردو فلموں کے ممتاز اداکار حبیب الرحمن 25 فروری کو دماغ کی شریانیں پھٹنے سے انتقال کرگئے ، 77 برس کے حبیب الرحمن نے اپنے کرئیر کا آغاز 1956میں بننے والی فلم ’’لخت جگر‘‘ سے کیا۔ سیکڑوں فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی مشہور فلموں میں ’’شہرت، معصوم، زہر عشق اور ہتھکڑی‘‘ شامل ہیں۔ حکومت کی جانب سے اُنھیں صدارتی تمغہ حسن سے بھی نوازا گیا۔

5 اگست کوپاکستانی فلم انڈسٹری کی معروف اداکارہ شمیم آراء 78برس کی عمر میں لندن میں انتقال کر گئیں۔ 1938 میں بھارت کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہونے والی خوبصورت اور مشہور اداکارہ شمیم آراء جن کا اصل نام پتلی بائی تھا۔ انھوں نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز فلم کنواری بیوہ سے کیاجو1956 میں کراچی سے ریلیز ہوئی۔ان کی بہترین فلموں میں فرنگی، آگ کا دریا، ہم راز اور دیوداس شامل ہیں ۔انہیں فنکارانہ صلاحیتوں پر چار مرتبہ نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔
فلم کی بات گلوکاروں کے بناء ادھوری لگتی ہے :

اپنی گائیکی سے 4 دہائیوں تک لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والی پشتو گلوکارہ معشوق سلطانہ55برس کی عمر میں 19 دسمبر کو انتقال کر گئیں، 1962 میں پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان سے باقاعدہ گائیکی کا آغاز کیا جب کہ فنی خدمات پر معشوق سلطانہ کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر 600 ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔موسیقی میں خدمات کے پیش نظر حکومت کی جانب سے 1997 میں معشوق سلطانہ کو صدارتی ایوارڈ ستارہ امتیاز سے نوازا گیا جب کہ 40 سالہ فنی خدمات کے اعتراف میں گورنر خیبرپختونخوا نے 5 لاکھ روپے انعام بھی دیا۔

24 جون کو لوک گلوکار اللہ ڈینو خاصخیلی ٹنڈو الہ یار کے قریب ایک کار حادثہ میں جاں بحق ہوگئے۔ سندھ کے کلاسیکل گلوکار نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ انھوں نے شاہ عبدالطیف کی سچل سرمست اور بہت سی شاعری کوگانے کی صورت میں گایا۔

پاکستان کےمعروف گلوکار اے نیّر چھیاسٹھ برس کی عمر میں11 نومبر کو عارضہ قلب کے باعث لاہور میں انتقال کرگئے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے بحیثیت انگلش ٹیچر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، جبکہ 1974 میں جی رہے ہیں ہم تنہا گا کر انہوں نے اپنا فنی سفر شروع کیا۔اے نیر کے گیت ‘یونہی دن کٹ جائے یوں شام ڈھل جائے’ کو شائقین نے کافی پسند کیا،مگر فلم خریدار کے گیت، پیار تو اک دن ہونا تھا نے ان کو عوامی مقبولیت کی ایسی سند عطا کی جو کم ہی فنکاروں کے حصہ میں آتی ہے۔بہترین گلوکاری پر پانچ بار نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔

جون کی 22تاریخ کو پاکستانی قوالی کی ایک مایہ ناز آواز امجد صابری کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردیاگیا، انہیں رمضان کے پروگرام کی ریکارڈنگ کے لئے آتے ہوئے کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا ۔ انھوں نے 9 سال کی عمر میں موسیقی سیکھنے کا آغاز کیا۔ قوالی کا فن اُنھیں وراثت میں ملا تھا۔

پاکستان کےمعروف اسلامی اسکالر جنید جمشید 7 دسمبر کو ایک طیارہ حادثے میں 52سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ انتیس برس پہلے 1987ء میں دل دل پاکستان سے شہرت حاصل کی، پاپ میوزک کے دور میں ان کے جو البم ریلیز ہوئے ان میں وائٹل سائنزون، وائٹل سائنز ٹو، اعتبار، ہم تم، تمھارا اور میرا نام، اس راہ پر، دی بیسٹ آف جنید جمشید اور دل کی بات شامل تھے۔پندرہ سال تک پاپ میوزک میں کامیابیوں اور دنیا کے مختلف ممالک میں پرفارم کرنے کے بعد جنید جمشید چکا چوند کی دنیا سے مذہب کی جانب راغب ہوئے ۔ حکومت پاکستان کی جانب سے 2007 میں جنید جمشید کو تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔جنید جمشید کا پہلا نعتیہ البم دوہزار پانچ میں جلو ہ جاناں کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد جنید جمشید کے جو نعتیہ البم ریلیز ہو ئے ان میں محبوب یزداں ، بدرالدجیٰ، یاد حرم، ہادی الانام، رب زدنی علما اور نور الہدیٰ کے نام سر فہرست تھے۔

گلوکاری کےبعد بات ہوجائے ادب ، سیاست اور صحافت کی:
پاکستان میں اردو فکشن کے مشہور ومعروف افسانہ نگار انتظار حسین 2 فروری کو 93 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے ،ان کاشمار اردو فکشن، خاص طور پر افسانے یا کہانی کے اہم ترین ادیبوں میں کیا جاتا تھا۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’گلی کوچے‘ 1953 میں شائع ہوا تھا۔ان کے افسانوں کے 8 مجموعے، 4 ناول، آپ بیتی کی 2 جلدیں، ایک ناولٹ شائع ہوئے۔اس کے علاوہ انھوں نے تراجم بھی کیے اور سفر نامے بھی لکھے۔ان کے اردو کالم بھی کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں اور وہ انگریزی میں بھی کالم لکھتے رہے۔انتظار حسین کا ایک ناول اور افسانوں کے 4 مجموعے بھی انگریزی زبان میں شائع ہو چکے ہیں۔انتظار حسین کو ان کی گراں قدر ادبی خدمات کے اعتراف میں پاکستان، بھارت، مشرق وسطیٰ اور یورپ میں بھی کئی اعزازات سے نوازا گیا۔

ماہِ فروری کی 10تاریخ کو اردو ڈرامہ نگاری کی ایک اہم شخصیت ڈرامہ نگار اور ادیبہ فاطمہ ثریا بجیا 85برس کی عمر میں جہان فانی سے کوچ کر گئیں، وہ 1960 میں پی ٹی وی سے منسلک ہوئیں اور 1966 میں آغا ناصر کے ڈرامے سے اداکاری کا آغاز کیا۔ان کے ڈرامے شمع، آگہی، افشاں، عروسہ اور انا بڑے خاندانوں کے مسائل کی بہترین عکاسی کرتے رہے ہیں، جبکہ انارکلی، زینت، آگہی، بابر اور سسی پنوں ان کے مقبول ترین ڈراموں میں سے چند نام ہیں۔ ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا، جب کہ 2012 میں ان کو صدر پاکستان کی طرف سے ہلال امتیاز دیا گیا۔انھوں نے سندھ حکومت کی مشیر برائے تعلیم کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

13اپریل کو سندھی زبان کے نامور ادیب و دانشور آغا سلیم طویل علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ آغا سلیم خالد اپنے قلمی نام آغا سلیم سے جانے جاتے تھے ،وہ ریڈیو پاکستان سے اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ آغا سلیم نے سندھی زبان میں کئی ناول اور کہانیاں لکھیں ۔صوفی بزرگ شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری کا اردو اورانگریزی ترجمہ کیا۔ ان کے مقبول ناول اورافسانوں میں چاند کی تمنا، اندھیری دھرتی روشن ہاتھ، نامکمل انسان، ہم اوست، لذت گناہ، درد کا شہر، شاہ عبدالطیف کی شاعری کا ترجمہ لالن لال لطیف کہے، اور باب فرید کا ترجمہ صدیوں کی صدا شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے انہیں 2 مرتبہ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔

ماہِ جون ہی میں ایک اور ادیب ڈاکٹر اسلم فرخی طویل علالت کے بعد 15 جون 2016 کو کراچی میں وفات پاگئے۔ ڈاکٹر اسلم فرخی نے طویل عرصہ تک کراچی یونیورسٹی میں اردو ادب کی تعلیم دی۔ وہ ایک ممتاز نقاد، بلند پایہ خاکہ نگار، شاعر اور سب سے بڑھ کر ایک انتہائی محبت کرنے والے استاد تھے۔
8 اگست کو سندھ کے مشہور ڈرامہ نگار علی بابا76سال کی عمر میں برین ہیمریج کے باعث کراچی میں انتقال کر گئے۔ ڈرامہ نگار علی محمد عرف علی باباجو ابتداء میں ریلوے اور ٹیکسٹائل کے محکموں سے منسلک تھے، انھوں نے 1965میں مختصر کہانیوں سے لکھنے کا آغاز کیا اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ڈراموں سے شہرت حاصل کی۔اُنکا ڈرامہ دھرتی دھکانہ جس میں تقسیم ہند کے بعد عوام کی حالتِ زار کی عکاسی کی گئی تھی سندھی ادب میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔اسکے علاوہ ان کا بین الاقوامی شہرت یافتہ ڈرامہ” ڈنگی مانجھ دریا ” نے جرمنی کے سالانہ ڈرامہ میلے میں تیسرے بہترین ڈرامے کا ایوارڈ حاصل کیا۔

سیاست اور پھر صحافت ہوگی زیر بحث:

جنوری کی 27 تاریخ کو اقوام متحدہ میں پاکستان کے خصوصی نمائندے کے طور پر قوم کا وقار بلند کرنے والے سفارتکارصاحبزادہ یعقوب علی خان انتقال کرگئے۔ 95 سال کے سابق وزیر خارجہ لیفٹیننٹ جنرل (ر)صاحبزادہ یعقوب علی خان کی آنکھوں نے ملکی سیاست کے کئی ادوار دیکھے ۔انھیں تین فوجی سربراہوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔آغا خان یونیورسٹی کا قیام ان کی کوششوں کا مرہون منت ہے۔

22 نومبر کومعین قریشی برس کی عمر میں واشنگٹن میں انتقال کر گئے۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا۔ 1955 میں انڈیانا یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد پاکستان واپس آئے اور پلاننگ ڈویژن میں ملازمت اختیار کی ، ایک سال بعد ہی آئی ایف ایم میں ملازم ہوگئے۔وہ 1960 میں گھانا حکومت کے معاشی مشیر مقرر ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن میں شمولیت اختیار کی۔ 1974 سے 77 تک ایگزیکٹو وائس پریزیڈنٹ بھی رہے۔1981 میں انہوں نے عالمی بینک میں شمولیت اختیار کی اور بتدریج اس کے سینئر وائس پریزیڈنٹ آف فنانس مقرر ہوگئے۔ اس عہدے پر وہ 1987 تک فائز رہے جس کے بعد انہیں عالمی بین کا سینئر وائس پریزیڈینٹ بنادیا گیا۔وہ 18 جولائی ، 1993ء سے 19 اکتوبر 1993ء تک پاکستان کے نگراں وزیراعظم رہے۔

21جولائی 2016 کو معراج محمد حسین طویل علالت کے بعد 77 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔کوئٹہ سے میٹرک کرنے کے بعد وہ کراچی منتقل ہوئے اور جامعہ کراچی سے ایم اے کیا۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بانی رکن ذوالفقار بھٹو کے قریبی ساتھی اور ان کی کابینہ میں وزیرِ محنت بھی رہے، بعدازاں انھوں نے پیپلز پارٹی چھوڑ کر 1977 میں اپنی پارٹی ‘قومی محاذ آزادی’ بنالی۔1998 میں وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جنرل سیکرٹری بنے لیکن چیئرمین عمران خان سے اختلافات کے بعد 2003 میں انہوں نے نہ صرف تحریک انصاف بلکہ عملی سیاست سے بھی کنارہ اختیار کرلیا۔

31جولائی کوپاکستانی سیاست کی ہی ایک اور شخصیت انور علی چیمہ انتقال کر گئے۔ چوہدری انور علی چیمہ جنہوں نے ایک بھرپور سیاسی زندگی بسر کی،مسلسل 77بار ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ، انہوں نے کبھی کوئی الیکشن نہیں ہارا۔

28مارچ کو پاکستان کے ماہر اقتصادیات منظور حسین مرزا 85سال کی عمر میں رحلت فرماگئے۔ وہ محکمہء تعلیم کے ایڈیشنل سیکرٹری اور معاشیات کے پروفیسر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے انگریزی اور معاشیات پر بہت ہی کتابیں لکھیں۔

9 اگست کو گورنر آف اسٹیٹ بینک آف پاکستان آفتاب غلام نبی قاضی 97سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ انھوں نے برطانوی دورِ حکومت میں اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔50سال سول سروس میں خدمات انجام دیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد سندھ حکومت میں اور پھر مغربی پاکستان میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے فرائض انجام دئیے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں اقتصادی امور پر صدر کے مشیر کے طور پر بھی منتخب ہوئے۔ وہ ملک کے جوہری پروگرام کی نگرانی کے لئے قائم کیے گئے کو آرڈینیشن بورڈ کے رکن بھی رہے۔اس کے علاوہ چیئر مین واپڈا، چیئر مین فیڈرل بورڈ آف ریوینیو، گورنر اسٹیٹ بینک پاکستان اورپلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئر مین کے فرائض بھی انجام دئیے۔اُنھیں ستارہ پاکستان اور ستارہ خدمت کے اعزازات سے نوازا گیا۔ ۔

14 نومبر کو کوسیاست کی دنیا کی ایک اہم شخصیت جہانگیر بدر72برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انھوں نے 60 کی دہائی میں طلبا سیاست میں قدم رکھا وہ پی ایس ایف کے پلیٹ فارم سے ہہلے کالج یونین کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ جہانگیر بدر نے دور آمریت میں کوڑے بھی کھائے۔ ان کا شمار بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں 2 مرتبہ وفاقی وزیر رہے۔ اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران انہوں نے کئی کتابیں بھی لکھیں۔ جہانگیر بدر پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے 4آمروں کے دور میں صعوبتیں برداشت کیں۔وہ دل اور گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔

25 جون کو لیفٹننٹ جنرل فرّاخ خان راولپنڈی میں وفات پا گئے۔ انھوں نے 1959میں پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی۔ اور ایک جوان سالہ کپتان کی حیثیت سے 1965کی پاک بھارت جنگ لڑی۔اس جنگ کے بعد وہ ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مختلف عہدوں پر فائز ہوئے۔ ان کا سب سے اہم عہدہ ڈائریکٹر جنرل پنجاب رینجرز کا تھا، جس پر وہ 1984 سے 1985 تک فائز رہے۔ لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی کے بعد اُنھوں نے کور کمانڈر پشاور کا عہدہ سنبھالا اور پھر 1991سے1994تک چیف آف جنرل اسٹاف کے عہدے پر تعینات رہے۔

سابق صحافی اور سول سوسائٹی کے رہنما خرم ذکی 7مئی کو نارتھ کراچی میں ہوٹل پر فائرنگ میں جاں بحق ہوئے۔خرم ذکی نجی ٹی وی چینلز میں اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

8 جولائی کو پاکستان کے مایہ ناز سماجی کارکن عبدالستار ایدھی جنہیں انسانیت کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام اور پاکستانی قوم سے بھی بہت محبت تھی، اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے۔ انہوں نے 1951 میں خدمتِ خلق کا فیصلہ کیا اور شہرِ قائد کے قلب میں نہایت پرامید ہو کر اپنا کلینک کھولا۔ایدھی اور ان کی ٹیم نے میٹرنٹی وارڈز، مردہ خانے، یتیم خانے، شیلٹر ہومز اور اولڈ ہومز بھی بنائے۔ ان کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس گردانی جاتی ہے۔حکومت پاکستان کی جانب سے 1989 میں نشان امتیاز سے نوازا گیا۔

اور آخر میں ذکر سیاحت سے وابستہ فیس آف پاکستان کا:

آکسیجن ٹینک کے استعمال کے بغیر دنیا کی بلندترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر کے دنیا کے بلند ترین مقام پر سبز ہلالی پرچم لہرا نے والے حسن سدپارہ کا تعلق اسکردو سے تھا۔حسن سدپارہ 21 نومبر کوراولپنڈی میں انتقال کر گئے۔ انہوں نے اپنے پروفیشنل کیرئیر کا آغاز 1999 میں قاتل پہاڑ ننگا پربت کی کامیاب مہم سے کیا،2004 میں دنیا کی دوسری بلند چوٹی کے ٹو سر کی اور اس کے بعد براوٹ پیک ، گشہ بروم ون اور کے ٹو سرکر کے پاکستان میں واقع آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں کو سر کرنے کا منفرد اعزازحاصل کیا اور دنیا میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کر کے کوہ پیمائی کی حیران کن تاریخ رقم کردی۔ حسن سد پارہ خون کے کینسر میں مبتلا تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے