زرداری کی واپسی پراعتزاز کی حیرانی

پارٹی میں ایک گروپ کا یہ واضح موقف ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی وجہ سے صوبہ پنجاب میں پیپلزپارٹی میں دوبارہ جان ڈالی جاسکتی ہے.

سابق صدر آصف علی زرداری کے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے اور پارلیمانی سیاست میں متحرک ہونے کے اعلان پر پیپلز پارٹی کے سینیئرترین رہنما اعتراز احسن کی حیرانی نے سیاسی حلقوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔

سیاسی حلقوں میں اس سوال پر بحث شروع ہوگئی ہے کہ آخر کار اعتراز احسن کی آصف علی زرداری کے اعلان پر حیرانی کیوں ہوئی۔ صدر آصف علی زرداری نے گذشتہ برس 27 دسمبر کو اپنی متقولہ بیوی اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں تقریر کے دوران یہ اعلان کیا کہ وہ اور ان کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب لڑیں گے۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے سینیئر ترین رہنما اعتراز احسن نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں اس بات کا اعتراف کیا کہ انھیں آصف زرداری کے انتخاب لڑنے کے اعلان پر حیرانی ہوئی اور ساتھ ہی اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اس اعلان کے بعد پنجاب میں پیپلز پارٹی کی بحالی کی کوششیں متاثر ہوسکتی ہیں۔

یہ پہلا موقع ہے جب پیپلزپارٹی کے کسی سینیئر رہنما نے پارٹی کے اندر سے آصف علی زرداری کے کسی فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔سیاسی مصبرین کی رائے ہے کہ سینیئر رہنما کا یہ بیان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب کی قیادت آصف علی زرداری کی جگہ بلاول بھٹو کو صوبے میں متحرک دیکھنا چاہتی ہے۔ سنہ 2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی جہاں پنجاب میں شکست کے بعد صوبائی قیادت مایوسی کا شکار ہوگئی وہیں پیپلز پارٹی کو پنجاب میں بحال کرنے کے لیے بلاول بھٹو زرداری کو متحرک کرنے کی حکمت عملی بھی ترتیب دی گئی۔

بلاول بھٹو کی پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں سیاسی سرگرمیاں بھی اسی حکمت عملی کی ایک کڑی تھیں اور بلاول بھٹو زارداری نے خود یہ اعلان کیا کہ وہ لاہور میں مستقل قیام کرکے اسی شہر میں سیاست کریں گے۔ اس سے پہلے آصف علی زرداری نے بھی صدرات کی معیاد ختم ہونے کے بعد لاہور میں قیام کا اعلان کیا تھا اور ایوان صدر کے بعد لاہور کی جدید آبادی میں قائم بلاول ہاؤس میں قیام کیا تھا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بلاول زرداری حکمران شریف بردارن کو چیلنج دے سکتے ہیں جبکہ ان کے والد آصف علی زرداری کا طرز سیاست اس سے مختلف ہے۔ پنجاب آبادی کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس سے کامیاب ہونے والی جماعت ہی ملک کے وزارت عظمی کا منصب سنبھالتی ہے۔

پیپلز پارٹی میں ایک گروپ کا یہ واضح موقف ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی وجہ سے صوبہ پنجاب میں پیپلزپارٹی میں دوبارہ جان ڈالی جاسکتی ہے اور آصف زرداری کے متحرک ہونے سے ان کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اعتراز احسن کا خدشہ اسی گروپ کے موقف کی تائید کرتا ہے۔

سیاسی تحزیہ نگار ڈاکٹر حسن عکسری رضوی کے مطابق پیپلز پارٹی پنجاب کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ سخت گیر موقف اختیار کرکے ہی پیپلز پارٹی کو صوبے میں زندہ رکھا جاسکتا ہے اس مقصد کے لیے بلاول بھٹو بہترین انتخاب ہیں۔ حسن عکسری رضوی کے بقول پیپلز پارٹی پنجاب کا یہ گلہ ہے کہ آصف علی زرداری تنقید کے لیے نرم انداز اختیار کرتے ہیں اور شریف برداران کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔

سنییئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو کے متحرک ہونے سے صوبے میں پارٹی میں کچھ حرکت ضرور آئی ہے۔ ان کے بقول سابق صدر آصف علی زرداری کے سامنے سنہ 2018 کے انتخابات کا ہدف نہیں ہے بلکہ آصف علی زرداری یہ چاہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب پر زور دیا جائے تاکہ وہ وہاں سے کامیابی حاصل ہو اور اس کے علاوہ وسطی پنجاب سے کچھ نسشتیں نکالی جائیں۔

سہیل وڑائچ کے مطابق آصف علی زرداری سنہ 2018 کے انتخابات میں مخلوط حکومت بنانا چاہتے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے سنہ 2018 تک پنجاب میں پارٹی کو دوبارہ اسے کے قدموں پر کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔ ادھر ڈاکٹر حسن عکسری رضوی کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کے پارلیمانی سیاست میں آنے سے بلاول بھٹو زرداری کی وہ سیاسی حیثیت نہیں رہے گی جو اس وقت بلاول بھٹو زرداری کو حاصل ہے۔

تاہم سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کا پارلیمانی سیاست میں آنے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ بلاول بھٹو کو سیاسی طور پر ضائع نہ کیا جائے بلکہ اس مستقبل کے لیے تیار کیا جائے کیونکہ بلاول بھٹو زرداری ہی آصف علی زرداری کا اصل اثاثہ ہیں۔
سہیل وڑائچ کے بقول آصف علی زرداری نے حکمرانی اچھی نہیں تھی تاہم ان کی سیاسی چالیں اچھی رہیں۔

ڈاکٹر حسن عکسری کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کے دوبارہ پارلیمانی سیاست میں متحرک ہونے کا مطلب پارٹی پر کنٹرول حاصل کرنا ہے تاہم اس سے پارٹی میں بغاوت کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ البتہ سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کے معاملے پر نواز شریف کے خلاف فیصلے آنے سے پیپلز پارٹی کا سکوپ اور کم ہوجائے گا اور پیپلزپارٹی سے وابستہ سیاست دان تحریک انصاف کو ترجیح دیں گے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ جو بات اعتراز احسن نے کہی وہ پیپلز پارٹی پنجاب کے کئی رہنماؤں کے دل بات ہے لیکن وہ اس کو زبان پر نہیں لاتے۔ ان کے بقول پارٹی کے کئی رہنما پیپلزپارٹی کی شکست کا ذمہ دار آصف علی زرداری کی شخصیت کو قرار دیتے ہیں۔ اور اب آصف علی زرداری کی پارلیمانی سیاست میں واپسی سے ان لوگوں کو مایوسی ہوئی ہے۔
سید زاہد حسین کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے متحرک ہونے سے پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنماؤں اور کارکنوں میں یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ پارٹی میں دوبارہ روایتی عوامی سیاست ہو گی۔

ان کے بقول بلاول بھٹو زرداری کے سیاست میں متحرک ہونے یہ تاثر زور پکڑ رہا تھا کہ اب حکومت کی مضبوط اپوزیشن ہوگی۔
زاہد حسین کے مطابق پارلیمان میں آنے سے آصف علی زرداری تمام سرگرمیوں کا محور بن جائیں گے اور بلاول بھٹو زرداری کا کردار محدود ہو جائے گا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے آصف علی زرداری کی پارلیمانی سیاسی میں واپسی سے ان کے دوستوں اور بلاول بھٹو زرداری کے مداحوں میں کشمکش شروع ہوجائے گی۔

بشکریہ بی بی سی اردو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے