انصاف کاپتھر!

منصفِ اعظم ﷺ نےفرمایا

"تم سےپہلےکی قومیں اس وجہ سےتباہ ہوئیں کہ اگرکوئی کمزورجرم کرتاتوسزادی جاتی اوراگرطاقتورجرم کرتاتواسےچھوڑدیاجاتا”

ہمارےیہاں بھی یہی صورتحال ہےکہانصاف انہی کےلئےہےجوطاقتورہیں اورسزاکےحق دارغریب ونادار۔آنجہانی مشرف کےعہدِآمریت میں جب عدلیہ پرقدغن لگائی گئی توقوم نےیک زباں ہوکراس عدلیہ کاہی ساتھ دیا۔افتخارچوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کےججزنےآمرکےسامنے انکارکےجرم کی پاداش میں نظربندی کاسامناکیا۔

پھریوں ہواکہ وکلانےعدلیہ کی آزادی کی تحریک شروع کی۔تحریک کےآغازکےبعدملک بھرکی عوام نےوکلاکاساتھ دیاکہ عدلیہ کی بحالی لازمی ہے۔تمام طبقات کی مشترکہ جدوجہد کےسبب بلآخرعدلیہ بحالی کی تحریک کامیابی سےہمکنارہوئی۔مگرکچھ ہی مدت بعدیہ عدلیہ کی نہیں بلکہ شخصیات کی بحالی ثابت ہوئی۔کیوں کہ عدلیہ بحالی کی تحریک کےبعدمحض زبانی جمع خرچ اوربڑی بڑی اخباری سرخیوں میں ججزکے”جرات مندانہ”بیانات کی اشاعت کےسواقوم کےہاتھ کچھ نہ آیا۔

عدلیہ کے”عہدِ افتخار”میں ہی چوٹی زیریں میں حافظ عبداللہ نامی ایک شخص کوایک ہجوم نے تھانےسےنکلواکراسےگلیوں میں گھسیٹااورپھرآگ لگادی۔اوروں کوقانون کی حکمرانی کےبھاشن دینےوالی عدلیہ مگرگنگ ہی رہی تھی۔ریمنڈڈیوس،شاہ رخ جتوئی اورسیالکوٹ میں دوبھائیوں پرظلم کرنےوالےظالم اس عدلیہ کےہاتھوں سےہی "پارسائی”کی سندلےکرآزادہیں۔پرویزمشرف ، سانحہ 12 مئی ،قصورکےدرندہ صفت انسان اوراقلیتوں کی بستیاں جلانےوالےسب ہی توآزادہیں۔

عدلیہ کاکام یہ ہےکہ وہ بلاتفریق انصاف کی فراہمی یقینی بنائے۔عدلیہ بحالی کی تحریک کےبعدعوام عدلیہ کواپنےتمام دکھوں کامداواسمجھنےلگی تھی۔ملک میں سیاسی وانتظامی بدعنوانیوں کےسبب واحدسہاراعدلیہ تھی مگرعدلیہ عوام کی امنگوں پرپورااترنےمیں مکمل طورپرناکام رہی۔لاپتہ افرادکامعاملہ تاحال زیرِالتواہےکیوںکہ سامنےایک طاقتورفریق ہے

حال ہی میں ریٹائرہونےوالےچیف جسٹس صاحب نےکئی باراپنےخطبات وریمارکس میں ملکی نظم ونسق کی زبوں حالی کارونارویا۔سوال مگریہ ہےکہ عدلیہ سمیت باقی ادارےکیاکررہےہیں اورنظام کی بہتری کی ذمہ داری آخرکس کی ہے۔؟کیااس ذمہ داری کااحساس کم ازکم عدلیہ کوبھی ہےکہ نہیں۔؟ملک میں بدامنی،ناانصافی اورظلم وجبرکی صورتحال میں عدلیہ بھی برابرکی ذمہ دارہے۔دوسرےاداروں کی طرح عدلیہ بھی روایتی بیان بازی اورخانہ پُری کےسواکچھ نہیں کررہی۔

ارسلان افتخارکامعاملہ ہویاحاضرسروس جج کےگھرمیں تشددکانشانہ بننےوالی طیبہ کا۔عدلیہ کاکرداروہی ہےجودوسرےاداروں کاہےکہ اپنےپیٹی بھائیوں کے”پاک دامن” پرکوئی”داغ” نہ لگنےدیاجائے۔حدتویہ ہےکہ بجائےانصاف فراہم کرنےکےاس مظلوم بیٹی کوغائب کرادیاگیا۔جس کےبوڑھےوالدین اس کی تصویریں لئےانصاف کی بھیک مانگ رہےہیں۔جس ملک میں عدلیہ کی حالت یہ ہوکہ وہ عدلیہ کےوقارکی بجائےشخصی وقارکومدِنظررکھ کرمعاملات کودیکھیں تووہاں کس انصاف کی امیدرکھی جائے۔

اس طرح کےواقعات بھی ہمارےسامنےہیں کہ لوگ وفات پاجاتےہیں اورپھران کےحق میں فیصلہ آتاہے۔25،25سال عمرقید کاٹکرباہرآتےہیں اورعدالت سےاپناکیس واپس لیتےہیں۔12سال بعدایک سزائےموت کےقیدی کی قسمت جاگتی ہےاوراس کےبےگناہ ہونےکافیصلہ کیاجاتاہے۔کچھ ہی روزپہلےلاہورہائیکورٹ میں ایک شخص نےخودکوآگ لگاکرخودکشی کی کوشش کی۔نہایت معمولی کیس بھی اتنےلٹکائےجاتےہیں کہ لوگ عمربھرعدالتوں کےچکرلگاتےرہتےہیں۔شریف شرفاہرممکن کوشش کرتےہیں کہ عدالت سےواسطہ نہ پڑےاوروجہ نظامِ عدل ہے۔

عدلیہ کواپنےرویوں پرغورکرناچاہئے۔ججزکاکام انصاف پرمبنی فیصلہ کرناہےنہ کہ بھاشن دینا۔ججزکی زبانیں نہیں فیصلےبولنےچاہئیں کہ عدلیہ بہترکام کررہی ہے۔انصاف کی بروقت فراہمی کےلئےبارہابیانات تودئےگئےاوراسی طرح سپریم جوڈیشل کونسل کےاجلاسوں میں بھی اس پرغورکیا گیامگرحالات جوں کےتوں ہیں۔سستےاورفوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔کسی کی شخصیت اورعہدہ کی بجائےعدالتی وقارکومدِنظررکھناچاہئے۔لوگ ہرطرف سےمایوس ہوکرعدلیہ کی طرف آتےہیں مگرعدلیہ بھی انصاف کی فراہمی کےلئےکچھ چیزوں کوضروری سمجھتی ہےجن کےبغیرانصاف کاحصول نہایت ہی مشکل ہے۔احمدندیم قاسمی اپنی مشہورنظم "پتھر”میں عدلیہ کےشرمناک کرداررکی بابت تحریرکرتےہیں

؎ ایک انصاف کاپتھربھی توہوتاہے
مگرہاتھ میں تیشہِ زرہوتوکام آتاہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے