لاپتہ افراد اور لاپتہ افکار

لاپتہ افراد کا معاملہ وطن عزیز میں بہت عرصے سے موجود ہے. ہزارہا افراد اٹھائے جاتے ہیں اور ان کے پیارے پھر ساری زندگی گمشدہ افراد کی تلاش میں در در ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں. مـشرف دور میں ایسے افراد جو ریاست کے نظریات سے باغی تھے یا بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں ریاست کے آپریشن کو غلط گردانتے ہوئے اس کے خلاف آواز بلند کرتے تھے ان کو سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے اغوا کر لیا جاتا ہے اور اکثر کو بیرونی ایجنسیوں کے حوالے بھی کر دیا جاتا ہے.

یہ سلسلہ مشرف کے اقتدار کا سورج ڈوبنے کے بعد کم تو ضرور ہوا لیکن تھما نہیں. آج بھی ریاست کے طے کردہ مروجہ نظریات اور اقدار کو چیلنج کرنے والوں کو لاپتہ افراد کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے. حال ہی میں فاطمہ جناح یونیورسٹی کے پروفیسر اور لبرل ایکٹوسٹ سلمان حیدر سمیت قریب 10 کے قریب بلاگرز کو اغوا کر لیا گیا. ان افراد کی گمشدگی میں کس کا ہاتھ ہے سو فیصد یقین سے کچھ بھی کہنا ناممکن ہے لیکن قیاس کیا جا رہا ہے کہ ان افراد کو ریاستی ایجنسیوں نے اٹھایا ہے.

سلمان حیدر اور دیگر لکھنے والے گمشدہ افراد زیادہ تر مذہبی گھٹن اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کے بارے آواز بلند کرتے رہتے ہیں .بلوچستان میں ظاہری سی بات ہے کہ جنگ کا ماحول ہے اور بغاوت جس کو کہ بھارت اور ایران کی سرپرستی حاصل ہے اسے فوجی طاقت سے کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے.

دنیا بھر میں مسلح بغاوتوں کو ہمیشہ طاقت سے ہی کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے. کیونکہ گولی کا جواب گولی سے ہی دیا جاتا ہے.ایسے علاقے جہاں بغاوتیں زور پکڑتی ہیں وہاں انسانی حقوق کی پامالی ہونا کوئی نئی بات نہیں.ایسے میں سیکیورٹی ایجنسیوں کو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کہیں کوئی جانے انجانے میں کہیں دشمن طاقتوں کا آلہ کار تو نہیں بن گیا اور ذرہ برابر شک پر بھی وہ ایسے آدمی کی مکمل جانچ پڑتال کرنے کے بعد شک مزید گہرا ہونے پر اسے پوچھ گچھ کیلئے اٹھا لیتی ہیں.اگر تو اس فرد کا تعلق کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمی یا ملک دشمن طاقتوں کے ساتھ نہ ہو تو اسے سمجھا بجھا کر چھوڑ دیا جاتا ہے بصورت دیگر کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمی سے تعلق ہونے کی صورت میں اسے قید میں رکھا جاتا ہے.

اس طریقہ کار سے اختلاف اپنی جگہ لیکن سیکیورٹی ایجنسیوں اور اداروں کی اپنی ذمہ داریاں ہوتی ہیں ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے شاید کئی دفعہ کڑوے یا تلخ اقدامات اٹھانے پڑے ہیں لیکن مجموعی طور پر لاپتہ افراد کے زیادہ تر کیسز میں جن افراد کو ایجنسیوں کی جانب سے اٹھایا جاتا ہے وہ کسی نہ کسی صورت میں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں.

ان سرگرمیوں کو کئی دفعہ عدالتوں میں ثبوتوں کے ساتھ ثابت کرنا ممکن نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ ایسے تلخ اقدامات کئی دفعہ سیکیورٹی اداروں کو اٹھانے پڑتے ہیں.امریکہ میں سی آئی اے ہو یا برطانیہ میں ایم آئی سکس یا پھر روس میں کے جی بی یہ تمام ادارے بھی اپنے اپنے ممالک میں وطن دشمن عناصر کو اٹھاتے ہیں یا خاموشی سے مار دیتے ہیں.

گمشدہ افراد یا لاپتہ افراد کا ملبہ اپنے سر لینے کا شوق نہ تو کسی سیکیورٹی ادارے کو ہوتا ہے اور نہ ہی کسی سیکیورٹی ایجنسی کو. دوسری جانب وطن عزیز میں مذہبی اور شدت پسند جماعتوں کے بھی مسلح اور جرائم پیشہ ونگ موجود ہیں. مذہب کے حوالے سے اختلاف ،جہاد پر تنقید، یا توہین جیسے اہم معاملات سے لیکر ان جماعتوں کے دوغلے پن پر تنقید کرنے کی صورت میں ان جماعتوں کی جانب سے بھی ایسے افراد کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور یا تو قتل کر دیا جاتا ہے یا پھر تشدد کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے.

اسی طرح تاوان کے حصول کیلئے بھی کچھ شدت پسند جماعتیں اور گروہ افراد کو اغوا کرتے ہیں. کئی دفعہ دشمن ملکوں کی سیکیورٹی ایجنسیاں بھی اپنے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے سماجی کارکنوں یا دانشوروں کو لاپتہ کر دیتی ہیں یا قتل کر دیتی ہیں.لاپتہ افراد کا مسئلہ نہ تو اتنا سیدھا ہے جو آسانی سے گھر بیٹھے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے کی بورڈ ایکٹوسٹوں کو سمجھ آ سکتا ہے اور نہ ہی اتنا آسان کہ کوئی بھی پیرا شوٹ اینکر یا اپنے اپنے مفادات کا تابع لکھاری یا دانشور اس کے بارے میں حتمی رائے قائم کر سکتا ہے.

موجودہ گمشدگیاں چونکہ زیادہ تر بلاگرز اور سوشل میڈیا یا موم بتی جلانے کی حد تک محدود ایکٹوسٹوں کی ہیں اس لیئے تھوڑا سا شور سننے کو مل رہا ہے. لیکن یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ان موجودہ لاپتہ افراد میں زیادہ تر افراد ایسے ہیں جو مذہب یا رسومات کے حوالے سے قائم شدہ افکارات کو چیلنج کرتے ہیں یا کسی خاص فرقے یا گروہ کے حق میں یا اس کو نیچا دکھانے میں مصروف رہتے ہیں.

سلمان حیدر کا معاملہ البتہ تھوڑا پیچیدہ ہے چونکہ وہ شعبہ تدریس سے بھی وابستہ ہیں اور براہ راست ہزارہا طالبعلموں کے افکار و خیالات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اس لیئے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ انہیں وارننگ دینے کیلئے اٹھا لیا گیا ہو.لیکن یہ صرف قیاس ہے یقین سے کچھ بھی نہیں جا سکتا.اب مدعا یہ ہے کہ جب کوئی بھی شخص معاشرے ریاست یا مذہب کے کسی بھی تصور نظریے یا روایات کو چیلنج کرتا پے اور آواز بلند کرتا ہے تو اسے یہ ادراک ہوتا بھی ہے اور ہونا بھی چائیے کہ اس راہ میں خطرات ہوتے ہیں .طے شدہ روایات اصولوں یا جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کی قیمت بہر حال کبھی جان دیکر چکانی پڑتی ہے تو کبھی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہو کر.کبھی قید و بند یا کبھی اذیتی ٹارچر کی صورت میں اور کبھی کاروباری یا ملازمتی نقصان کی صورت میں اور کبھی کفر، توہین ،غداری کے فتووں اور سماجی شدت پسند رویوں کے سامنے کی صورت میں.یہ راہ نہ صرف پل صراط کی مانند ہوتی ہے ،بلکہ اس پر چلنے والوں کے پاؤں ہر دم لہولہان رہتے ہیں.

اس لیئے اس راہ کو چننے سے پہلے آپ سب کو اپنے آپ سے بھی یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کیا آپ یہ قربانیاں دے سکتے ہیں یہ اذیتیں سہہ سکتے ہیں یا نہیں.سقراط، منصور ،جالب، منٹو کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے توخیر اپنے ضمیر اور اندر کی آواز کے قیدی ہوتے ہیں اس لیئے نہ تو وہ سود و زیاں کا سوچتے ہیں اور نہ نتائج کا. لیکن اس قبیلے سے تعلق رکھنے کیلئے جس ڈی این اے کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہر کسی میں موجود نہیں ہوتا.

اسی طرح وطن یا ریاست دشمنی کسی کے مذہب یا فرقے کی تضحیک اور تعمیری تنقید میں بھی زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے.سوچنے بولنے یا کسی ایکڑوزم سے پہلے کم سے کم اس بات کا تعین بے حد ضروری ہے کہ انجانے میں آپ کہیں کسی کے پراپیگینڈے کا شکار ہو کر کسی کا آلہ کار تو نہیں بن رہے.افراد لاپتہ ہو جائیں تو کبھی نہ کبھی مل جاتے ییں یا خبر آ جاتی ہے لیکن افکار کی گمشدگی یا لاپتہ ہونے کی صورت میں نہ تو کوئی خبر آتی ہے اور نہ ہی کبھی ادراک ہونے پاتا ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے