افعانستان : نئی’گریٹ گیم’ کا آغاز

تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی اور علاقائی حالات اور طالبان اور ہمسایہ ممالک کے اقدامات کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان ایک مرتبہ پھر ’گریٹ گیم‘ کا میدان بننے والا ہے۔ امریکی فوج کی افغانستان پر چڑھائی کے 15 سال بعد بھی اس خطے میں اثر و رسوخ کی جنگ جاری ہے، جو ماضی میں روس اور امریکہ کے درمیان ہونے والی سرد جنگ یا روسی اور برطانوی سلطنت کی رسہ کشی کی یاد دلاتی ہے۔ بے اعتباری اور فریقین کے ایک دوسرے پر شکوک افغانستان میں پائیدار اور دیرپا امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور خطرہ ہے کہ یہ خدشات کہیں پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں۔

عمومی طور پر افغان طالبان کے سب سے بڑے حمایتی سمجھے جانے والے پاکستان پر دوغلاپن کا الزام لگتا رہا ہے، لیکن افغان اور مغربی ممالک کے اہلکاروں اور طالبان کے ذرائع کے مطابق افغان طالبان نے کچھ عرصے سے خاموشی سے ایران سے بھی تعلقات بنا کر رکھے ہیں اور حال ہی میں روس اور طالبان کے تعلقات میں بھی گرم جوشی دیکھنے میں آئی ہے۔ گذشتہ دسمبر امریکی فوج کے جرنل جان نکلسن نے روس اور ایران پر طالبان سے بات چیت کرنے پر تنقید کی تھی۔

امریکہ نے خود طالبان سے روابط قائم کرنے کی کوششیں کی ہیں لیکن اس سے امن حاصل نہ ہو سکا۔ افغانستان میں جاری شدت پسندی اور منشیات کو ختم کرنے میں ناکامی پر علاقائی ممالک بشمول روس اور ایران نے امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ان بدلتے ہوئے اتحاد اور حالات کے پیچھے تین اہم محرکات ہیں۔

شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی افغانستان میں آمد

افغان حکومت کی بدلتی پالیسیاں

امریکہ اور خطے کے دوسرے اہم ممالک جیسے پاکستان، روس، چین اور ایران کے درمیان کشیدگی

خود کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کی افغانستان میں آمد دو سال قبل ہوئی جس کے بعد روس اور ایران نے افغان طالبان سے رابطے استوار کرنے شروع کیے۔ افغانستان میں امریکہ کے بتدریج کم ہوتے ہوئے فوجی کردار اور طالبان کی واپسی کے بعد سے علاقائی سطح پر یہ خیال نمایاں ہوا کہ ملک میں اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع دوبارہ میسر آیا ہے۔ ساتھ ساتھ روس، چین اور وسطی ایشیائی ممالک کو خدشہ تھا کہ شدت پسندی کی نئی لہر کہیں ان کی سرحدوں تک نہ پہنچ جائے۔

دولت اسلامیہ کی افغانستان آمد سے طالبان کی طاقت کو دھچکہ ضرور پہنچا لیکن اس سے روس چین اور ایران کو یہ حوصلہ ملا کہ ان سے مقابلے کے لیے افغان طالبان سے روابط قائم رکھنے ضروری ہیں۔ سالہا سال افغان طالبان کی مخالفت کے بعد روس کی نئی پالیسی حیران کن تبدیلی ہے لیکن دولت اسلامیہ کے آنے کے بعد دسمبر 2015 میں ایک روسی سفیر نے کہا تھا کہ دولت اسلامیہ سے لڑائی میں ’طالبان اور ہمارے مفادات ایک سمت میں ہیں۔‘ طالبان ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ انھوں نے پچھلے دو سالوں میں روسی اہلکاروں سے روس اور دوسرے ممالک میں ملاقاتیں کی ہیں۔

لیکن روسی حکومت کی یہ پالیسی اس تناظر میں بھی دیکھی جا سکتی ہے کہ وہ ان روابط کے ذریعے افغانستان میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ روس اور ایران کے طالبان سے بڑھتے ہوئے تعلقات سے پاکستان کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے جس پر عالمی برادری کی جانب سے اکثر طالبان کی مدد کرنے کا الزام لگتا ہے۔ اسی طرح ایک اور حیران کن پیش رفت ایران اور افغان طالبان کے مابین ہوئی ہے جہاں سنی فرقے سے تعلق رکھنے والے طالبان نے شیعہ ایران سے رابطے قائم کیے ہیں تاکہ دولت اسلامیہ کا مقابلہ کیا جا سکے۔

واضح رہے کہ ماضی میں ایران طالبان کے خلاف کارروائیوں کی حمایت کرتا رہا ہے اور 2001 میں امریکہ کے ساتھ طالبان کے خلاف تعاون بھی کر چکا ہے۔
تاہم روس کی طرح ایران بھی دولت اسلامیہ کی آمد کے بعد طالبان سے تعلقات قائم کرنے پر مصر ہے۔ طالبان کے ایک وفد نے 2015 میں ایران کا دورہ کیا جہاں دونوں فریقین نے مختلف موضوعات پر بات کی اور ساتھ ساتھ دولت اسلامیہ سے بھی نمٹنے کے حوالے سے گفتگو کی۔

مئی 2016 میں افغان طالبان کے اس وقت کے سربراہ ملا منصور اختر مبینہ طور پر ایران سے واپسی پر پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے۔ دوسری جانب افغان حکومت کی اپنی خارجہ پالیسی نے بھی سیاسی حساب کتاب کو بدل دیا ہے۔ 2014 میں قائم ہونے والی افغان حکومت کو چین، روس اور ایران کمزور سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق افغان صدر اشرف غنی کے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔

ماضی میں اشرف غنی کے کچھ فیصلوں پرعلاقائی طاقتوں نے حیرانی کا اظہار کیا تھا۔ حکومت میں آنے کے بعد افغان حکومت نے اپنے روایتی حلیف انڈیا کے بجائے روایتی حریف اور ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کو ترجیح دینے کا اعلان کیا لیکن سال بھر میں ہی یہ پالیسی ترک کر دی گئی اور افغان حکومت نے اپنا رخ واپس انڈیا کی طرف موڑ لیا۔ ساتھ ساتھ انھوں نے سعودی حکومت کے یمن مخالف بنائے جانے والے اتحاد میں شمولیت اختیار کی جس پر ایران نے ناراضی کا اظہار کیا۔ یہ تمام تر واقعات اور مختلف فریقین کے آپس میں تعلقات مستقبل میں ایک بےیقینی کی کیفیت کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ افغان طالبان کے اہم رہنما پاکستان میں قیام پذیر ہیں اور وہیں سے مدد حاصل کرتے ہیں لیکن اب اندیشہ ہے کہ شاید ان کو مختلف ممالک ’ٹروجن ہارس‘ یا پراکسی کی حیثیت سے تین وجوہات کی بنا پر استعمال کریں گے۔

افغان حکومت اور اس کی امریکی اور نیٹو اتحادیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے۔
ان ممالک کا افغانستان میں اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے۔

اور ان ممالک کی آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی لڑائی کے لیے۔

طالبان اس نئے، بڑھتے ہوئے کردار کو اپنے جائز مقاصد کے حصول کی جنگ کی تصدیق سمجھتے ہیں اور اس کے عوض وہ ان ممالک اور افغانستان سے امریکہ اور دوسرے اتحادی فوجوں کے انخلا کا مطالبہ کرتے ہیں۔

طالبان ذرائع کے مطابق وہ اس صورت میں تین وعدے پورے کریں گے:

دولت اسلامیہ کا افغانستان سے قلع قمع

غیر ملکی شدت پسندوں کو ان ممالک کے خلاف کام کرنے سے روکنا

ان کی اپنی جنگ افغانستان تک مرکوز رکھنا

تو ان تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ’گریٹ گیم‘ کس سمت جائے گی۔

کئی علاقائی قوتوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ افغان مسئلے کو حل کرنے کے لیے امریکی امداد پر بھروسہ کرنا ناکافی ہے۔ وہ ممالک اب یہ کردار خود ادا کرنے کی جانب مائل ہیں۔ گذشتہ کئی دہائیوں میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ کوئی ایک ملک افغانستان پر مکمل طور پر بااثر نہیں ہو سکتا لیکن مخلتف کرداروں کی موجودگی نے افغانستان میں افراتفری کو مزید ہوا دی ہے۔ افغان عوام کے مطابق ان مسائل کو حل کرنے کے لیے پورے خطے کی حمایت اور اتحاد ضروری ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادی میر پوتن کے آپس کے بہتر تعلقات شاید افغانستان کے لیے بہتری کا پیغام لائیں۔

لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی افغانستان کو اکیلا اس کے حال پر چھوڑا گیا ہے ملک میں امن و امان اور استحکام دیکھا گیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی دخل اندازی کم کرنا ہو گی، نہ کہ زیادہ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے