پیپلزپارٹی: تنظیم نو یا تشکیلِ نو؟

پیپلزپارٹی کو آج تنظیم ِنو سے زیادہ تشکیلِ نوکی ضرورت ہے۔

ایک اچھی خبر یہ ہے کہ بلاول بھٹونے ترقی پسند خیالات رکھنے والے اہلِ علم و دانش سے ملاقات کی ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک، ڈاکٹررسول بخش رئیس اور کچھ اور۔ یہ کام انہیں بہت پہلے کرنا چاہیے تھا۔ ہر جماعت کو اپنی بقا کے لیے صرف سیاسی کارکنوں اور سیاست دانوں ہی کی ضرورت نہیں ہوتی، اسے اہلِ علم کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جماعتیں جب ان سے بے نیاز ہو جائیں تو وہ اندھیرے میں دیواروں سے سر ٹکراتی رہتی ہیں، انہیں راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ پھر وہ ایک ایسے مسافر کی طرح ہوتی ہیں جو کسی زادِ راہ کے بغیر محض عزمِ سفر کے ساتھ گھر سے نکل پڑے۔ محض عزم سے چند قدم تو اٹھائے جا سکتے ہیں، سفر طے نہیں کیا جا سکتا۔

تنظیم سازی کے باب میں یہی کچھ ممکن تھا۔ اس وقت پارٹی کے پاس جو رجال ِکارموجود ہیں، انہیں آمادۂ کار کرنا، پارٹی کے لیے ایک چیلنج تھا۔ یہ کام بڑی حد تک ہوگیا، پنجاب اور مرکز میں تنظیم قائم ہوگئی۔ اس بار انتخاب بہت بہتر ہے، اس نئی تنظیم کو اب لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ اس مر حلے پر اسے فکری راہنمائی کی ضرورت ہے۔ بلاول نے اچھا کیا جو ان لوگوں سے مشورہ کیا جو پیپلزپارٹی سے ہمدردی رکھتے اور اسے فعال دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی خواہش رکھتے ہیں کہ یہ جماعت اس نظریاتی تشخص کے ساتھ آگے بڑھے، جس سے یہ ابتداً منسوب تھی۔

پیپلزپارٹی کا ایک فکری پس منظر ہے۔ اس کا تعلق اس نظریاتی کشمکش سے ہے جوبیسویں صدی میں دائیں اور بائیں کی تقسیم کی صورت میں سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی کو بائیں بازوکی جماعت کہا گیا۔ اسلام پسند، پاکستان میں دائیں بازو کے نمائندے قرار پائے۔ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں کو دایاں بازو کہا جا تا تھا اور اشتراکیت پسندوں کو بایاں بازو۔ پاکستان کے اسلام پسند سرمایہ دارانہ نظام کے حامی نہیں تھے۔ مولانا مودودی کا علمی کام اسلام پسندوں کا فکری تعارف ہے۔

انہوں نے اپنی دینی تعبیر کے مطابق زرعی اصلاحات کی مخالفت کی یا شخصی جائیداد کی اشتراکی تعبیرات کورد کیا۔ ان تعبیرات اور اشترکیت کی مخالفت کے باعث انہیں دائیں بازو سے منسوب کیا گیا۔ تاہم ان کے پورے کام کو سامنے رکھا جائے تو انہوں نے اشتراکیت کے ساتھ مجموعی طور پرسرمایہ داری کو بھی رد کیا اور انسان کو درپیش معاشی مسائل کا ایک تیسر احل پیش کیا جو ان کے نزدیک اسلام پیش کر تا تھا۔

پیپلز پارٹی اپنے تشکیلی مرحلے میں ایک فکری مشق سے گزری۔ اسی دوران میںکچھ بنیادی دستاویزات مرتب کی گئیں۔ یہ نظریاتی رومانویت کا دور تھا۔ رومان ایک گرم جوشی پیدا کرتا ہے۔ پارٹی کے ابتدائی عہد میں اس کا بے پنا ہ وفور تھا۔ لوگوں نے ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھا اور دکھایا جو اُس معاشی مساوات کے رومان کو حقیقت بنادے جسے مارکس اور اشتراکیت نے پیش کیا۔ ”سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ کے نعرے میں اسی خیال کو متشکل کیا گیا۔

یہ بات تاہم اس وقت بھی پارٹی قیادت پر واضح تھی کہ ہمیں سوشلزم کی ایک نئی تعبیر کرنی ہے۔ ایسی تعبیر جسے پاکستانی سماج کا تہذیبی اور روایتی پس منظر قبول کر سکے۔ اسے ایک بنیادی دستاویز میں بیان کیا گیا جو ”اسلامی مملکت پاکستان میں سوشلزم کیوں؟‘‘ کے عنون سے شائع ہوئی۔ اس میں کہاگیا: ”پاکستان کے مخصوص حالات میں ہی سوشلزم کے اصولوں کو عملی جامہ پہنا یا جا سکتا ہے۔کسی (دوسرے) ملک کے پہنے ہوئے کپڑوں سے کام نہیں چلے گا۔ سوشلزم کے اصولوں پر عملدرآمد، ہماری مذہبی، سماجی اور ثقافتی اقدار کے مطابق ہی ہو سکے گا‘‘۔ پاکستان کے مذہبی طبقات معترض ہوئے تو ان کے جواب میں بھٹو صاحب نے کہا: ”اسلام اور سوشلزم کے اصول باہم متصادم نہیں ہیں۔ اسلام مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور سوشلزم اس کے حصول کا ایک جدید طریقہ ہے‘‘۔ اس امتزاج کو قائم کرنے کے لیے ”اسلام ہمارا دین ہے‘ کا نعرہ اختیارکیاگیا۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ بھٹو صاحب کی زندگی ہی میں، ان کے حامی ترقی پسند حلقوں میں مایوسی پھیل گئی تھی۔ اس کے اسباب، اس عہد کے ایک نامور ترقی پسند دانش ور سبط حسن نے بیان کیا۔ انہوں نے لکھا: ”تیسری دنیا کی قیادت کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کا طبقاتی رجحان، ان کی وسیع تر قومی ذمہ داریوں کے راستے میں رکاوٹ رہا۔ بجائے اس کے کہ وہ ان ضمانتوں کا لحاظ رکھتے جو انہوں نے لوگوں کو دیں اور اپنی جمہوری بنیادوں کو مضبوط کرتے، وہ اُن لوگوں کے جوش کو ٹھنڈا کرنے میں لگے رہے، جو سماجی ڈھانچے میں کسی تبدیلی کے خلاف تھے۔ طلبہ تنظیموں، مزدور یونینوں اور اپنے ہی حامی سیاسی کارکنوں کے خلاف تشدد آمیز رویہ اختیار کیا۔ انقلابی عنصر کو پارٹی سے نکال باہر کیا، خوشامدی اور ابن الوقت لوگوں کو جگہ دی گئی۔ یہی کچھ صدر سوئیکارنو، صدر ناصر، شیخ مجیب الرحمن نے کیا اور یہی بھٹو نے بھی کیا‘‘۔(The Battle of Ideas in Pakistan)
یہ پیپلزپارٹی کے دورِ اوّل پر ایک ترقی پسنددانش ورکا تبصرہ ہے جو کسی طرح بھی پارٹی کا مخالف نہیں تھا بلکہ اس کا تو رومان ہی اس جماعت سے وابستہ تھا۔ اس کے بعد یہ پارٹی مزید دو ادوار سے گزر چکی۔ ایک بے نظیربھٹو کا دور اور ایک وہ دور جوزرداری صاحب سے منسوب ہے۔ ایسا ہی حقیقت پسندانہ تجزیہ ان ادوار کا بھی ہونا چاہیے۔

پروفیسر فتح محمد ملک نے ان ادوار پر بہت کچھ لکھا ہے۔ کیا اچھا ہو اگر کوئی ان کا خلاصہ بلاول کے سامنے رکھے تاکہ ایک نئے دور کا آغاز کر تے وقت، انہیں یہ معلوم ہو کہ ان کے ہمدرد، ان کی تاریخ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔

آج یہ پیپلزپارٹی کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ نئی قیادت کو معلوم ہونا چاہیے کہ ماضی میں ایسا کیا ہوا جس نے پارٹی کو آسمان سے زمین پر دے مارا۔ بدلتے فکری پس منظر میں، پارٹی کا بیانیہ کیا ہونا چاہیے؟ بے نظیر صاحبہ کے دور میں سامراج سے مفاہمت کی حکمتِ عملی سامنے آئی اور یہ صاف دکھائی دیا کہ مسلم معاشروں کے لیے، مغربی لبرل ڈیموکریسی کو وہ بڑی حد تک قبول کرتی ہیں۔ اپنی کتاب”مفاہمت‘‘ (Reconciliation) میں انہوںنے اسے بڑی حد تک اسے بیان کر دیا ہے۔ انہوں نے اس بات کا ادراک کیا کہ انقلابی سیاست کا دور اب گزر چکا۔ اگر پیپلزپارٹی ان خیالات کو اپنا بیانیہ بناتی ہے تو پھر ترقی پسند دانش ور ان کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟ کچھ سوالات اور بھی ہیں۔ پروفیسر فتح محمد ملک صاحب فکرِ اقبال کی روشنی میں ریاست پاکستان کی فکری تشکیل کے قائل ہیں۔ یہ کوئی سیکولر بیانیہ نہیں ہے۔ اس کے برخلاف پیپلزپارٹی لبرل اور سیکولر طبقات کے لیے ایک پرکشش سیاسی محاذ ہے۔ پارٹی ملک صاحب کی اس تعبیر سے کیسے اتفاق کر سکتی ہے؟

بلاول بھٹو کو اگر اپنا رنگ جماناہے تو لازم ہے کہ پارٹی کی نظریاتی تاریخ اور سیاسی ادوار کا تنقیدی جائزہ لیں۔ اس میں اہلِ دانش ہی ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ یہ خوش کن ہے کہ انہوں نے اہلِ دانش کی ضرورت کو محسوس کیا ہے۔ اس سے ممکن ہے کہ بلاول بھٹو کا تاثر بھی بہتر ہو جو سطحی سیاسی نعرہ بازی اور بے مغز تقریروںکے باعث گزشتہ مہینوں میںشدید مجروح ہوا ہے۔ انہیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ورثہ پاؤں جمانے میں تو مدد دے سکتا ہے، قدم اٹھانے میں نہیں۔ اس کے لیے اپنی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بینظیر بھٹو اس کی ایک مثال ہیں۔ بھٹوصاحب کی سیاسی وراثت نے انہیں سیاست میں کھڑا کیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا تشخص اپنی محنت اور انفرادیت سے قائم کیا جو بھٹو صاحب سے مختلف ہے۔

اچھا ہو گا اگر پیپلزپارٹی تنظیمِ نو کے اس مرحلے کو تشکیلِ نو کے عمل میں بدل دے۔ ازکار رفتہ سیاست دانوں کو شامل کرنے سے پارٹی زندہ نہیں ہو سکتی۔ اس سے بلاول کے بارے میں مایوسی بڑھے گی.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے