مدارس ہی مشکوک کیوں ؟

حکومت سندھ نے ملک بھر کے ان کے 94مدارس کی فہرست تیار کرلی ہے ،یہ لسٹ اپیکس کمیٹی کی جانب سے کرائے جانے والے سروے کے بعد تیار کی گئی ہے ، جس میں سندھ کے 83 ،بلوچستان کے 4 اور کے پی کے،کے 5مدارس شامل ہیں، جس کے ذیل میں کہاگیا ہے کہ یہ وہ مدارس ہیں جو مشکوک ہیں اور وفاقی حکومت سے ان مدارس پر پابندی کی سفارش کی گئی ہے ،مشکوک مدارس میں دارلعلوم کراچی ، جامعہ فاروقیہ ، جامعۃ الرشید، علامہ بنوری ٹاؤن سمیت بین الاقوامی سطح پر مقبولیت رکھنے والے دینی اداروں کو شامل کیاگیاہے ۔اگر لسٹ کابغیر کسی سیاسی ومذہبی تعصب کے جائزہ لیاجائے تو دیکھتے ہی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ یہ لسٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نہیں بلکہ کسی ایک فرد کی ٹیبل اسٹوری ہے جس کوشاید ایک ہی مکتبہ فکر کے سارے مدارس کے نام یاد تھے جو اس نے لکھ ڈالے ، ایسا لگتاہے جیسے لسٹ کو کسی خاص ایجنڈے کے تحت خاص لوگوں کے اشاروں پر مرتب کرکے حکومت سندھ مدارس دینیہ پر دباؤ بڑھانے کا خواب دیکھ رہی ہے ، ذرائع یہ بھی کہتے ہیں یہ لسٹ وفاقی وزیر داخلہ کو موصول ہونے کے بعد اس پر ان کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں گئی اورنہ ہاں اور نہ نا میں جواب دیاگیا بلکہ خاموشی کے ذریعے صوبائی حکومت کو یہ پیغام دیاگیاکہ ان کی مرتب کردہ لسٹ کی اہمیت نہیں ہے کیونکہ اس میں فقط مخصوص مدارس کو نشانہ بنایاگیاہے ۔

افسوس اس بات کا ہے کہ مقتدر ادارے جو مدارس دینیہ کی ترجمانی کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں ان کی جانب سے سرکاری سطح پر اس لسٹ کے حوالے سے جاننے کی کوشش نہیں کی گئی نہ ہی حکومت سے اس لسٹ کے حوالے سے کوئی جواب طلب کیاجارہاہے ، علماء اور اہل مدارس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مدارس کو مشکوک قرار دیئے جانے کیخلاف ٹھوس اقدامات کریں اور حکومت سے پوچھیں کہ آخر یہ کس کے اشارے پر اور کن ذرائع سے لسٹ مرتب کی گئی ہے ۔

لسٹ دیکھ کر معلوم ہوتاہے کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے جس مخصوص مکتبہ فکرکو ایک مخصوص ڈگر پر چلایا تھا اور ملکی پالیسی کے تحت ان مدارس نے لبیک کہاتھا آج انہی مدارس کو وفاقی حکومتوں سے لیکر صوبائی حکومتوں تک اس جرم کی سزا دی جارہی ہے ،کہیں کوئی بھی قتل ہوتاہے یا کوئی دلسوز واقعہ رونما ہوتاہے تو ان مدارس سے کڑیاں ملانے کی بھرپور کوششیں کی جاتی ہیں، قتل بھی انہی مدارس کے لوگ ہوتے رہے ہیں اور قاتل کا طعنہ بھی انہی مدارس کو دیا جارہاہے ، ساری دنیا جاتنی ہے جس جرم کی سزا آج مدارس کو دی جارہی ہے اس جرم میں ملک کے بعض ادارے برابر کے شریک رہے ہیں۔

اگران مدارس کو مشکوک قرار دینا ماضی کے حالات کی وجہ سے ہے تو پھر اہل مدارس کو یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ حکومت دھرا معیار ترک کرے اور ان قومی اداروں کو بھی مشکوک قرار دے جو مدارس کے کردار کو مشکوک بنانے میں ملوث تھے جن کے آشیر باد سے مسلح جتھوں کے مراکز مدارس کے نام سے چلا کرتے تھے،

اتحاد تنظیمات مدارس بالخصوص وفاق المدارس کی جانب سے بارہاحکومتوں کو توجہ دلائی جاتی رہی ہے کہ مدارس کسی قسم کی دہشتگردی میں ملوث ہیں اور نہ ہی کبھی رہے ہیں اگر حکومت کو پھر بھی مدارس کے کردار پر شک ہے تو ان کیلئے ہمارے دروازے کھلے ہیں،آئیں اورخود ہی مدارس کی چھان بین کریں ،مدارس کوئی نو گو ایریا نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے نہ جاسکتے ہوں بلکہ جب جب قانونی اداروں کو تعاون کی ضرورت پڑی ہے یہ تعاون کرتے رہے ہیں ۔

نائن الیون کے بعد مغرب کی جانب سے کوششیں شروع کی گئیں کہ کسی طریقے سے مدارس کو مشکوک قرار دیکر دینی طبقہ اور ریاست کے درمیان دوریاں پیدا کی جائیں تاکہ پلان کے مطابق ملک کے تشخص کوپامال کرنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے ،کیونکہ دشمن قوتیں سمجھتی ہیں کہ یہ مدارس اور دینی ادارے جب تک پاکستان میں قائم ہیں اس کی جغرافیائی اورنظریاتی سرحدوں کی طرف کوئی میلی آنکھ سے دیکھ نہیں سکتا، مغرب نے نائین الیون کے بعد مدارس کیخلاف پروپگنڈہ کرکے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا کہ مدارس کو عالمی سطحی پر دہشت گردی کے مراکز قرار دیا جائے اور مشکوک قرار دیکر بند کردیا جائے،مگر افسوس! وطن عزیز پاکستان جس کے نااہل اور کرپٹ حکمران اس حد تک گرچکے ہیں کہ وہ فری آف کاسٹ تعلیم کے مشن کو عام کرنے والے بے لوث فلاحی اداروں یعنی مدارس کوزبردستی دہشتگردی میں ملوث کرنے میں مصروف ہیں،بتایا جائے کہ اگر مشکوک تھے تو ان کے منتظمین اور مدارس کے بورڈز کو ان کے مشکوک ہونے سے آگاہ کیوں نہیں کیا گیا ؟ وزیر داخلہ نے ہزار بار مشکوک مدارس کا فیصد بتلایا مگر انہیں کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ ان مشکوک مدارس کے منتظمین یا متعلقہ وفاق کو آگاہ کریں ، پھر سندھ حکومت کی لسٹ دیکھ کر واضح کوئی اعلان نہیں کیا۔

ان حالات میں مذہبی طبقہ بالخصوص علما اور اہل مدارس کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت سے ان مدارس کے مشکوک قرار دینے کی وجوہات معلوم کریں، آخر پرامن مدارس کو زبردستی دہشتگردی میں ملوث قرار دینے کا حکومت کا مقصد کیاہے۔

ایسے وقت میں جب ملک میں سی پیک کے منصوبوں پرکام شروع ہوچکا ہے دشمن قوتیں پھر سے ملک میں دہشتگردوں کو منظم کرنے کی کوشش میں ہیں تاکہ دہشتگردی کے ذریعے سی پیک منصوبوں کو سبوتاژ کیاجائے ، گزشتہ روز پارہ چنار میں 50سے زاید جانیں ضایع ہوئیں، وقفے وقفے سے سانحات رونما ہورہے ہیں اور سیاستدان وحکمران آئے روز ملک کو نئے بحرانوں کی طرف دھکیلنے میں مصروف ہیں ، دہشتگردی کیخلاف ناکامیوں اور انتظامی کمزوریوں کو چھپانے کیلیے حکمران طبقہ مدارس کو ایک بار پھر موضوع بحث بناکر جی حضوری کے فرائض پورے کرنا چاہتاہے۔حکمرانوں کو اپنے اقدامات پر غورکرنا ہوگا اگر اہل مدارس نے متحد ہوکر آواز احتجاج بلند کی یا پاکستان کے یہ غیور عوام بپھر گئے تو پھر اقتدار کے عاشق نااہل حکمرانوں کو چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی، یہ ان مدارس کا دل گردہ ہے کہ وطن کی محبت میں ہر ستم ہنس کر سہ جاتے ہیں۔ اگر یہ عمران خان اور دیگر سیاستدانوں کی طرح خود کو منوانے کیلئے شاہراہوں پر اتر آئیں توتاریخ گواہ ہے کہ ان سے زیادہ منظم انداز میں احتجاج کی مثال بھی کوئی پیش نہیں کرسکتا،اس ریلے کو روکنا حکومت کے لیے آسان بھی نہیں ہوگا۔

مدارس مدارس کی رٹ لگانے والے وطن عزیز کے حکمرانوں کے سامنے یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ ملک بھر میں دہشتگردی میں بھارت اور وطن عزیز مخالف قوتیں ملوث ہیں سندھ میں بالخصوص کراچی میں قتل وغارت گری میں بیرونی ہاتھ کے ساتھ ساتھ گینگ وار سیاسی قوتیں ملوث رہی ہیں جس حوالے سے ملزمان کے یومیہ اعترافی بیانات اخبار ات کی زینت بن رہے ہیں ان سب کے باجود زہر آلود نیزوں کا رخ اہل مدارس کی طرف کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے