چیمبر میں عورت ہی بلائی جائے گی۔

میرے چیمبر میں آجائیں

مقدس ایوان کے محترم وزیر با تدبیر۔
کیا تدبیر کی ؟

ایک خاتون معزز رکن نصرت سحر عباسی نے پوچھا جناب امداد پتافی اپنا جواب پڑھ کر سنائیں۔

یہ ہاوس کے رولز آف بزنس کے عین مطابق مطالبہ تھا۔

اب انگریزی پڑھنا سائیں کیلئے جوئے شیر نکالنے کے مترادف ٹھہرا ۔

سائیں تو سوال پوچھنے والوں میں سے ہیں جواب دینا تو توہین ٹھہرا اور پھر ایک عورت کی جرات کہ جواب مانگے ۔

سائیں کی گھر میں کس عورت کی جرات کہ کسی مرد سے سوال پوچھ سکے۔

اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے ایک دوسرے درجے کی مخلوق بھری محفل میں سائیں کے عقل کل ہونے کو چیلنج کرے اور سائیں کے نقد علمی پہ سوال اٹھانے کی جرات کرے۔

آسان ترین تدبیر کیا ہوسکتی تھی؟ سوال پوچھنے والے کو ذلیل کرنے کا کوئی ذریعہ تلاش کیا جائے۔

اگر گھر کی کوئی خاتون ایسی جرات کرتی تو اب تک اس کے ” کھنے سیک” دیے جاتے اور وہ گومڑوں اور نیلوں کا مرکب بنی صلاحیت بصارت و گویائی سے عارضی طور محروم اور مستقل طور پر استعمال صلاحیت کے بارے محتاط ہو چکی ہوتی۔

اب جس معاشرے میں عورت ہونا ہی ایک جرم ہو اور وہ ہمیشہ ایک کمزوری ہی سمجھی جاتی رہی ہو اسے چوٹ پہنچانا کتنا آسان ہے؟
اور اس کے خاندان کو شرمندہ کرنا کتنا سہل ؟
صنفی امتیاز اور اس سے جڑے غیرت و حمیت اور حیا کے تصور کو چوٹ پہنچاو۔ سب اردگرد بیٹھے مرد معزز ممبران معنی خیز انداز میں ہلکے سے مسکرائیں گے یا منہ دوسرے کے کان کے قریب کرکے ایک ہاتھ کو محتاط انداز میں درمیان میں چلمن بنا کر غلیظ فقرے کے تعفن کو باہر نکلنے سے روکنے کا اہتمام کریں گے اور پھر ایک مکروہ قہقہے کی بساند فضا میں پھیلا کر اپنی نشست پر واپس ٹیک لگا لیں گے۔
وزیر صاحب ” ڈرامہ کوئین ” نصرت سحر کو ،جو اب ان کے نام کا یقینا سابقہ بن جائے گا، دعوت دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے ” انگریزی” میں جواب سننا ہے تو ان کے چیمبر میں آجائیں وہ انہیں وہاں پڑھ کر سنا سنا دیں گے ۔

بھئی وہ کونسی انگریزی بولنے کی صلاحیت تھی جس کا اظہار خاتون ممبر کو چیمبر میں بلا کر ہی کیا جاسکتا ہے تاکہ ان کی تشفی ہو سکے؟

اب کم مائیگی و بیچارگی کا احساس اس وقت اور بڑھ جاتا ہے جب جواب میں نصرت سحر کو بھی اپنی خفت مٹانے اور بدلا چکانے کیلئے امداد پتافی کی ماں بہنوں کا ہی استعمال کرنا پڑتا ہے ۔

ہماری گالیاں کیا ہیں ؟ ایک مرد کا دوسرے مرد کی ماں بہن اور بیٹی سے اپنے مذموم ارادوں اور مکروہ خواہشات کا اظہار ۔

چاہے وہ ننگ دھڑنگ الفاظ میں دے دی جائے یا ذومعنی فقروں میں ملفوف کرکے بیان کردی جائے۔

اب چیمبر میں نصرت سحر کو دعوت دی جائے یا پتافی کی ماں بہن کو ، چیمبر میں عورت ہی بلائی جائیگی اور بلاتی جائی رہے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے