نواز شریف کے نااہل مشیر

ایک سال ہونے کو ہے پانامہ سکینڈل کا ہنگامہ ختم ہونے کو نہیں آ رہا ، کبھی یہ ہنگامہ سڑکوں پر ، رائے ونڈ کے راستوں پر کبھی ایوانوں میں کبھی عدالتوں میں شور مچائے ہوئے ہے ، اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے اس سکینڈل کو ہر موقع پر ہر طرح سے استعمال کیا اور حکومت کے لیے مشکلات بڑھائی جاتی رہیں ،

کئی ماہ سے حکومت کے حالات دیکھنے کے بعد یہ اندازہ لگایا کہ وزیر اعظم کے قریبی مشیر ہی ان کے پیچھے پڑے ہیں معاملے پر حکومت کی ساری حکمت عملی غلط نکلی ، حکومت قوم سے خطاب ، پارلیمنٹ میں جھوٹ اور قطری شہزادے کے خط ہر معاملے پر شرمندگی ، ناکامی اور بدنامی سے دوچار ہوئی ، معاملہ جتنا سلجھایا گیا اتنا الجھتا گیا

ایک کرپشن سکینڈل پر اس طرح کی تجویز دینا بنیادی طور پر غلط ہے لیکن صرف مشیروں کی نا اہلی کی وجہ سے ایک تجویز یہ ہے کہ وزیر اعظم پانامہ سکینڈل کو انتہائی معمولی طریقے سے حل کر سکتے تھے اور معاملہ انتہائی با آسانی سے سلجھایا جا سکتا تھا

پانامہ کا معاملہ سامنے آیا اس پر جب حکومت نے دیکھا کہ معاملہ بے قابو ہو رہا ہے اور اپوزیشن کا احتجاج اور میڈیا اس جی جان چھوڑنے والا نہیں اور عدالتوں کا بھی خوف برقرار تھا اس وقت وزیر اعظم صاحب چیئرمین نیب کو بلاتے نصف گھنٹے کی ملاقات کرتے اور کہتے کہ پانامہ سکینڈل پر نوٹس لیں ، ایک ماہ میں چار پانچ ڈی جیز کی سربراہی میں کمیٹی بنا دیں جو اس کی تحقیقات کرے ، دو تین ماہ بعد وزیر اعظم ، مریم نواز اور حسن و حسین نواز کو تحریری نوٹس دیئے جاتے ، ان سے جواب طلب کیے جاتے ، پھر دو چار ماہ بعد ان کی طرف سے جواب جمع کرا دیئے جاتے ، دسمبر دو ہزار سولہ آ جاتا ، نیب کو کہا جاتا کہ اب وزیر اعظم کو نوٹس دیں اور طلب کریں ، کمیٹی وزیر اعظم کو ایک ماہ بعد کی کسی تاریخ پر طلب کر لیتی ، وزیر اعظم نیب ہیڈکوارٹر جاتے پیش ہوتے پروٹوکول کے بغیر ، وزیر اعظم ہیرو بن جاتے ، میڈیا اور دانیال عزیز اور طلا ل چوہدری سب آسمان پر چڑھ جاتے ،

نواز شریف سے اس نیب نے کیا پوچھنا تھا کچھ بھی نہیں بس ڈراما چلتا رہتا اور نیب اس کے بعد پھر ایک دو ماہ گزر جاتے پھر نیب حسن نواز اور حسین نواز کو طلب کر لیتا ، پھر جون جولائی دو ہزار سترہ آ جاتا حسن و حسین نواز پیش ہو جاتے ، پھر نیب کی ٹیم اگست ستمبر میں لندن جاتی شواہد کا جائزہ لیتی ، پانامہ والوں سے ملتی ، اور تمام معاملات کی گہری چھان بین کے بعد دسمبر دو ہزار سترہ میں نیب انکوائری رپورٹ میں وزیر اعظم نواز شریف ، مریم نواز ، حسن نواز اور حسین نواز کو با عزت بے گناہ قرار دے دیتی ، پھر اگر اس کے خلاف کوئی سپریم کورٹ جاتا تو اس وقت تک نیب کا موجودہ چیئرمین کی مدت ملازمت ختم ہو چکی ہوتی وہ ریٹائر ہو جاتے اور اس کے بعد نیب کی ٹیم جانے سپریم کورٹ میں اور ان کا کام ۔۔۔

وزیر اعظم صاحب دسمبر دو ہزار سترہ میں کرپشن کیس میں سرخرو ہوتے اور دو چار ماہ بعد الیکشن ہوتا اور اس میں پھر بے گناہی کا نعرہ لگا کر نیب میں پیش ہونے کی ویڈیو اور اشتہارات چلا کر ، چین کے پروجیکٹ تب تک کافی تکمیل کو پہنچ چکے ہوتے ان سب کو کیش کرا کے پھر الیکشن جیت جاتے اور اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہوتے

اور رہا نیب کا سوال تو ، وہ نیب جو سن دو ہزار کے کیس کو سولہ سال بعد بھی مکمل نہ کر سکا اور وزیر اعظم کے خلاف انکوائری نہ کر سکا وہ عادی مجرم ہے اس طرح کے کیس سلجھانے میں اور الجھے ہوئے کو مزید الجھاکے پھر سلجھانے میں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے