دِل کی آنکھوں والاعمیرعلی!

ہوئی مدت کہ قلم روک رکھا ہے. وجہ یہ کہ کچھ ایسے ویسے حالات نے دبوچ رکھا ہے. میں مسلسل فرصت کی تلاش میں مصروف ہوں پر احباب تاحال فرصت ہے کہ کہیں ملنے کی نہیں. ٹھان رکهی تھی، چند سطریں خاص واسطے عمیر کے، کبھی ضرور لکھنی ہیں. خدا بھلا کرے حضرت ظہیرکا کہ آج میسج پھینک مارا کہ

عمیر علی
عمیر علی

چند سطریں واسطے عمیر کے آج ہو جائیں. ان کا کہا ایسا نہ تھا کہ طبیعت کی آمادگی یا مشاغل کے چھٹنے تک ٹال دیا جاتا. سو بوجہ بارش و سردی، سر اپنا دے کے بستر میں دھڑا دھڑ لکھے جا رہا. اب دیکھیے کیا کچھ کتنا لکھا جاتا ہے.

احباب !

مجھے خدشہ ہے تم عمیر سے بے خبری کی زندگی جی رہے ہو گے. مانا ہر شے جان کر جینا امکان سے باہر کی شے ہے، پر یہ شے ایسی شے نہ تھی کہ اس سے بے خبری روا رکھی جا سکے.

مشکل یہ ہے کہ اس تحریر میں عمیر کو پوری طرح سمیٹ رکھنا میرے لیے ممکن نہیں، تاہم خاص و عام کو عمیر کی بابت متنبہ کرنے کی خاطر چند سطریں اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کیے دیتا ہوں.

عمیر کشمیر کی دھرتی دھڑا دیساہ کا باسی اور بصارت سے پیدایشی محروم ہے. خوبی اس محرومی میں مگر یہ ہے کہ یہ محرومی اس کو دیکھنے سے محروم نہ کر سکی. آپ کسی اس کے ہم عمر دیکھ سکنے والے کو ٹھیک اس کے برابر ٹخنے سے ٹخنہ اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا کر دیجیے اور سوالات کا سلسلہ شروع کر دیجے. آپ سوالات کے دائرے میں ملکی سیاست، سیاسی حرکیات تک کو شامل کرتے چلے جائیے، سوالات کا سلسلہ تھم چکے تو تمہیں میری طرح اعتراف کیے بنا نہ بن پائے گی کہ عمیر کی بند آنکھوں کے سامنے کھلی آنکھیں کھلی کی کھلی ہی رہ گئیں. تم سوچنے لگ جاو گے اور سوچتے ہی رہ جاو گے کہ عمیرعلی بن دیکھے سب کیسے دیکھ لیتا ہے؟ ملکی صورت حال سے لمحہ بہ لمحہ یہ خود کو کسیے باخبر رکھتا ہے؟ بهئی یہ نیٹ، گوگل، ویٹس ایپ اور سیل فون سبهی کچھ کس طرح کام میں لے آتا ہے؟ میری حیرت ہے کہ بخدا محو حیرت ہی رہ گئی. آنکهیں اپنی بندھ کر کے چند گھنٹے ڈهنگ کے گزارنا ممکن نہیں لگتا، عمیر کو کی زندگی پوری طرح مربوط دیکھتا ہوں تو رشک سے مرا جاتا ہوں. اس نوعمر کا ہمت آفریں جذبہ قوموں کو نصیب ہو جائے تو بخدا قوموں کی تقدیر خود ان سے پوچھ پوچھ کر بنائی جانے لگ جائے.

صاحبو! جس جس کو بن آنکھوں کے دیکھنا، دیکھنا ہو وہ عمیر علی کو دیکھ لے.

عمیر کا ننھا وجود ہمت کے کچھ ایسے خمیرسے اٹھایا گیا کہ جو محرومی کو کامرانی کا زینہ بنائے بنا دم لینے کا نہیں. پرواز کا بے تحاشہ ذوق اسے یوں اچھال کر فضاء میں جھونک دیتا اور پھر یوں اڑائے رکھتا ہے کہ بال و پر کی سرے سے حاجت ہی نہیں رہتی.

بصارت سے محرومی نے اسے مایوسی کے گھڑے میں دھکیل دینے کی بجائے اسے خود میں ایسا نور بصیرت پیدا کرنے کی راہ سجھائی کہ اپنا تن و من جشم بینا بنا بیٹھا ہے. خدا اس کی بصیرت کا نور دیکھتی آنکھوں کو بخشے کہ وہ ابھی اس مشاہدہ سے بہرہ یاب نہ ہو سکیں جو عمیر علی کی لائق رشک ہمت نے اس کا نصیب بنادیا.

احباب ! عمیر کو قدرت سے بخشی گئی بے پناہ صلاحیتوں میں سے اس کی "خوش آوازی” کا ذکر بھی لازم ہے. سن سن کے کلام حافظے میں اتار چکنے کے بعد جب وہ اک خاص لے سے سر اٹھاتا ہے تو دل صدقے ہوا چاہتا ہے. آواز کا ردھم اللہ اللہ، زیروبم سبحان اللہ. اک متناسب آہنگ سے آواز کا جادو من پہ اثر انداز ہوتا ہے تو وجدان جھوم اٹھتا ہے. کئی بار اسے سنتے یوں لگا کہ روح کھل کے رقص کرنے کو تن کی قید سے بس ابھی نکلی چاہتی ہے. خوب دعا دے گئے عمیر کو جناب سردار عتیق کہ "خدا اس بچے کی بصیرت،خوش آوازی اور جملہ توفیقات میں خوب اضافہ فرمائے” وجدان کہتا ہے فرشتوں نے اس دعا پر باجماعت آمین کی آواز بلند کر ڈالی، سو کان دھرو یہ آواز سنو اور احباب فرشتوں کی آواز کے ساتھ ملائیے آواز اور کہیے الہی آمین، سردست مجھے عمیر کا ذکر روکنا ہو گا، مگر تمہیں اس کے بارے میں مزید اسی سے جاننا ہو گا. فیس بک پر بنی umair ali کے نام سے ،اس کی کٹیا کا در کھٹکھٹائیے اور دوبدو ہو کر کیجے وہ سب باتیں جو تمہارا من تمہیں سجھاڈالے.

جیتے رہیے عمیر کہ تمہارا دم غنیمت ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے