توہینِ صحافت ۔۔۔نامنطور

قلم کی حرمت ہو یا اس کی صریرحفاظت کرنا ایک صحافی ہونے کے ناطے مجھ پر ہی نہیں برادری کے ہر رکن پر فرض ہے اور جو اپنی توہین پر وجوہات تلاش کر رہے ہیں وہ یا تو گہرئے پانیوں کے باسی ہیں یا پھر خلا کی دنیا میں رہتے ہیں اس موضوع پر قلم کو جنبش دینے کا فیصلہ کئی بار کیا لیکن نظر میں بزرگ صحافی تھے کہ وہ اپنا فریضہ انجام دیں گے امید تھی کہ ایسے تمام لوگ میدان میں آ کر آواز بلند کریں گے کیوں کہ توہین صحافت کا سلسلہ تازہ رونما نہیں ہواعرصہ سے آوازیں گونج رہی ہیں لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ قربانیاں دینے والوں نے اپنا قبلہ تبدیل کر لیا ہے یا پھر ان میں سکت نہیں رہی ۔

یہ بات بھی بحث طلب ہے کہ صحافت کا معیاراور اس کی اقدار زوال پذیر کیوں ہیں اس کے ہم خود ذمہ دار ہیں یا پھر نادیدہ قوتیں صحافت کی عظمت کے درپے ہیں مجھے صحافت کے لیے دل میں کینہ رکھنے والے افراد کے نکتہ نظر سے سروکار نہیں لیکن باوجود ضبط کے کچھ الفاظ میری قوتِ سماعت پر حملہ آور ہیں بے چینی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کسی کا ہاتھ میرئے گریبان تک آ گیا ہے اور اگر مزاحمت نہ کی تو ہمیں چھلنی کر دیا جائے گا ۔کئی دنوں سے ہر لکھنے والے کو پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ معلوم پڑ سکے کہ صحافت پر ہونے والے وار پر کن خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے افسوس اس بات کا ہے کہ زیادہ تر بزرگ خاموش ہیں وہ حالات کا جائزہ لے رہے ہیں یا پھر خاموشی میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں اور یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس مسئلے میں الجھنا نہیں چاہتے ۔

خیر ہر کسی نے اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے لیکن پھر بھی ان حالات میں جناب محمد اظہار الحق اور محترم مجیب الرحمن شامی صاحب کی تحریروں کو پڑھ کر امید پیدا ہوئی ہے کہ ابھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ورنہ تو بقول بزرگوں کہ مایوسی میں انسان ہمیشہ غلط فیصلے ہی کرتاہے اس لئے مایوسی کو گناہ کہا گیا ہے ۔

محمد اظہار الحق تلخ نوائی کر رہے ہیں وہ دکھی ہیں انہوں نے مختلف ادوار میں صحافت کے کردار پر خوبصورت انداز میں بحث کی ہے اور کوڑے کے ڈھیروں پر پڑے اہم ملکی مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہمارا میڈیا ایک عرصہ سے گندگی کے گولے بنا کر ان گولوں کو لڑھکاتا پھرتا ہے ۔کوڑے کے ڈھیر ،غلاظت کے کاک ٹیل ہمارا مقدر بن چکے ہیں ۔

اس زمانے کو یاد کیجیے جب سرے محل اور سوئس اکاونٹس کے مسئلوں پر میڈیا بحث کرتا تھا ۔سرے محل اور سوئس اکاونٹس ایک بہت بڑے کوڑے کا ڈھیر تھا۔غلاظت کا کاک ٹیل۔پھر ایک اور غلاظت کی کاک ٹیل ،کوڑے کا ایک اور ڈھیر نمودار ہوا کہ شریف خاندان جب صدر پرویز مشرف کے عہدِ اقتدار میں جلاوطن ہوا تو کتنے سال کا سودا ہوا تھا ؟ شریف خاندان کچھ کہتا تھا ۔مخالفین کچھ کہتے تھے ۔پھر اس غیرت مند قوم نے دیکھا کہ ایک غیر ملکی شہزادہ آیا ۔میڈیا کے سامنے اس نے ایک کاغذ لہرایا کہ یہ ہے معاہدہ جس کے تحت شریف فیملی باہر گئی۔

یہ اس موقف سے بالکل مختلف تھا جو شریف فیملی اور اس کے ہم نواوں نے اختیار کیا ہوا تھا۔مگر افسوس کسی کو بھی شرم حیا نہ آئی ۔متعلقہ فریقوں سے لے کر عوام تک سب پی گئے۔غلاظت کے گولے لڑھکتے رہے۔لندن کے فیلٹس کوڑے کے ان ڈھیروں میں ایک نئے ڈھیر کا اضافہ ہے ۔ایسا اضافہ جس نے ماضی کی ساری غلاظتوں کو مات کر دیا ہے ۔خدا کی پناہ میڈیاسے لے کر بیرونِ ملک اخبا رات تک ،سوشل میڈیا سے لے کر بر صغیر کے کروڑوں خاندانوں تک،ہر جگہ اس ڈھیر میں سے غلاظت کے گولے نکال کر لڑھکائے جا رہے ہیں ۔

سنا ہے پنجاب کا ایک وزیر اعلی تھا اس کی ماں نے دیکھا کہ شاہراہ پر جلوس نکالا جا رہا ہے اور وزیر اعلی کے خلاف نعرے لگ رہے ہیں اس نے بیٹے کو شرم دلائی اور بیٹے نے استعفی دے دیا ۔جو کچھ وزیر اعظم کے ساتھ ہو رہا ہے ،کیا وزیر اعظم کی کی والدہ ماجدہ بھی نہیں کہتیں کہ پتر دفع کر اس اقتدار کو جس میں عزت نیلام ہو رہی ہے ۔پاناما لیکس فلیٹ آف شور کمپنیاں بیانات میں تضادات آڑتے ہوئے قالین پر شہزادے کا آنا باغ میں اترنا ،شہزادی کی آنکھوں سے سوئیاں نکالنا الزامات جوابات کوڑے کے ڈھیر ۔۔۔ غلاظت کی کاک ٹیل ۔جناب محمد اظہارالحق ا نے خباری تراشوں کو کوڑے کے ڈھیر وں سے نکال کر فیصلہ کرنے والی قوتوں کے سامنے لا کھڑا کیا ہے وہ اپنی عزت و تکریم پر اٹھنے والی ہر انگلی چاہے وہ کسی ایمپائر کی ہی کیوں نہ ہو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔

میری ذاتی رائے میں محمد اظہار الحق صرف اللہ کو ہی واحد اہمپائر مانتے ہیں کیوں کہ اللہ کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے ۔ میرے دل میں ایسے تمام افراد کی عزت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے جو صحافت کی عزت کی حفاظت کے لئے میدان میں اترے ہیں اللہ ان کی عزتوں میں مزید اضافہ کرے۔مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ انسان زندگی میں جو فیصلے خلاف قدرت کرتا ہے ان کا مقدر تو کوڑے کے ڈھیروں جیسا ہی ہوتا ہے اور جس معاشرے میں انصاف نہ ہو وہاں کوڑے کے ڈھیروں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ انصاف سے کیے فیصلے بولتے ہیں اور جن فیصلوں میں انصاف نہیں کیا جاتا وہ فیصلے کتابوں میں چھپ کر لائبریوں کی الماریوں میں تو سج جاتے ہیں لیکن ان کی حثیت کوڑے کے ڈھیروں سے بھی کم ہوتی ہے اور جس طرح یہ فیصلے بے انصافی سے کر کے انسانی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں اسی طرح کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھے ہوے ان فیصلوں کو دیمک کھا جاتی ہے ۔اسی تناظر میں جناب مجیب الرحمان شامی صاحب نے جو لکھا وہ دل کی گہرایوں کو چھو گیا ۔

شامی صاحب کا لکھنے کا اپنا اسلوب ہے اور وہ سخت سے سخت بات کرتے وقت بھی اخلاقی قدروں کے معیار کو گرنے نہیں دیتے ورنہ تو آج کا جدید معاشرہ قدیم روایات کو بھلا چکا ہے شامی صاحب جیسے چند لوگ ہی معاشرے میں رہ گئے ہیں جو اخلاقی روایات کے ستونوں کو مضبوتی سے تھامے کھڑے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان جوریمارکس دیتے یا کسی نکتے کی تشریح کے لیے جو سوال کرتے ہیں انہیں فیصلہ بنا کر ان کی تشہیر کی جاتی ہے ۔ایک ایک لفظ سے اپنی اپنی مرضی کے معانی تلاش کئے جاتے ہیں ۔

یہ درست ہے کہ فاضل جج کے ریمارکس پر سر نہیں دھنا جاسکتا ،لیکن یہ بھی درست ہے کہ اسے یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ایک فاضل جج نے جب اخباری تراشوں کو حقارت سے یہ کہہ کر رد کیا کہ اخبارات میں تواگلے دن پکوڑے فروخت ہوتے ہیں ،تو ایک اخبار نویس کے طور پر دل خون ہوا۔اخبار میں شائع ہونے والی کسی خبر کو صرف اس لئے سچ نہیں مانا جا سکتا کہ اسے چھاپ ڈالا گیا ہے ۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اخبارات کے صفحات میں کئی معرکے کی تحقیقی رپورٹیں چھپتی ہیں ۔

واٹر گیٹ سکینڈل،جو امریکہ جیسی سپر پاور کے طاقتور صدر رچرڈ نکسن کے زوال کا باعث بنا ،اخباری رپورٹ ہی کے ذریعے منظر عام پر آیا تھا ۔پاکستان میں بھی کئی اخباری رپورٹوں پر سپریم کورٹ نے سوؤ موٹو نوٹس لیا ۔ان کی بنیاد پر احکامات جاری کئے گئے۔فیصلے صادر ہوئے ہیں ۔گرفتایاں ہوئی ہیں اور وصولیاں کی گئی ہیں ۔کسی بات کو جہاں صرف اس لئے سچ تسلیم نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ اخبارات میں شائع ہوئی ہے ۔وہاں صرف اس لئے غلط بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے اخبار میں جگہ پا لی ہے ۔

دنیا بھر میں عدالتوں کے فیصلے رد کئے گئے ہیں ،خود پاکستان ہی میں دیکھیے،جنرل پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کو جوازعطا کرنے کا فیصلہ خود سپریم کورٹ ہی نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔مولوی تمیزالدین کیس کا فیصلہ بھی اسی ٹوکری کی زینت بنا ہوا ہے۔ ان فیصلوں میں تو پکوڑے بھی فروخت نہیں ہو پاتے ۔صداقت کو شہادت کی ضرورت ہوتی ہے اور شہادت کے بغیر کوئی لفظ جہاں بھی ہو اس پر تین حرف بھیج دینے چاہئیں۔

میں شکر گزار ہوں ان بزرگوں کا جنہوں نے ردعمل کا اظہار کر کے مجھے کسی منفی ردعمل سے بچایا ،اور میری انگلیوں سے ایسے الفاظ کو تحریر میں آنے سے پہلے ہی ختم کر دیا ۔اس میں میرا یہ ٖفخر ہے کہ مجھے صحافت کے ساتھ انتہا پسندی کی حد تک عشق ہے اور اسی انتہا پسندی کے باعث جب انتہا پسند ہو جاتا ہوں تو بزرگوں کی تحریروں اور ان کے فرمودات سے استفادہ حاصل کر کے اپنے منفی جذبات کو مثبت رویوں میں تبدیل کر لیتا ہوں ۔

صحافت سے وابستہ ہر فرد اس کا پاسبان ہے ہم نے وفاداری کا حلف تو نہیں اٹھایا لیکن حلف اٹھانے والوں سے زیادہ ملک کے نظریات کی حفاظت کرنا جانتے ہیں ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے