میاں صاحب پہلے نمبر پر۔۔۔

شفیق الرحمٰن کے مشہور اور حقیقی کردار شیطان مچھلی کے شکار سے واپس آتے تو بڑی بڑی مچھلیاں لے کر آتے تھے ۔ گھر والے بہت خوش ہوتے اور پکا کر مزے سے کھاتے۔ لیکن ایک دن گھر والوں نے خوب برا بھلا کہا اور آئندہ کے لیئے مچھلی کے شکار پر پابندی لگا دی گئی۔ کیوں کہ اُس دن بازار سے مچھلی فروش اُن سب مچھلیوں کے پیسے لینے آگیا تھاجو شیطان شکار کے نام پر ادھار لاتے رہے اور اچھے شکار پر داد پاتے رہے۔ لیکن شیطان ایک طالب علم تھے۔ کسی ادارے یا تنظیم یا ملک کے سربراہ نہیں تھے۔

اکتوبر 2016میں اسحاق ڈار کو جنوبی ایشیا کا بہترین وزیر خزانہ کا ایوارڈ دیئے جانے کا غلغلہ برپا ہوا اورکچھ ایسی خبریں اخبارات کی زینت بنیں۔””ورلڈبینک اور IMF نے اسحاق ڈار کو ایشیا کا سب سے بہتر وزیر خزانہ ہونے کا ایوارڈ دے دیا”” اس کے بعد مبارکبادوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ لفافہ بردار چینلز نے بریکنگ نیوز کے پھٹے لگائے۔ اورحکومتی میڈیا سیل نے ایمرجنسی بنیادوں پر ایک ایڈورٹایزمنٹ بنا کر تمام چینلز پر چلا دی۔جب ہم جیسے قنوطی اورخوشی بیزار چند صحافیوں نے IMF کے ڈائریکٹر سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ ایسا کوی ایوارڈ نہی دیا گیا اور نہ ہی IMF یا ورلڈ بینک میں اس طرح کے ایوارڈ کا کوئی رواج ہے۔یا حیرت۔مزید کھوجنے پر معلوم ہوا کہ جس اخبارمیں یہ خبر شائع ہوئی وہ ایک نجی اخبارہے اور IMF یا ورلڈ بینک کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ چونکہ یہ اخبار اصل میں چھپتا ہی نہی اور صرف کاغذی کاروائی کے لیے ہے چناچہ IMF یا ورلڈ بینک اس کے کسی نمائندے کواپنے کسی بھی اجلاس کی کوریج کی اجازت نہیں دیتے۔قنوطی اور ملک دشمن ، ترقی بیزار صحافیوں کی تفتیش ایک قدم اور آگے بڑھتی ہے اور پتاچلتا ہے کہ یہ اخبار Emerging Markets دو سال پہلے ایک پاکستانی صاحب نے شروع کیاتھا اور حکومت پاکستان چار قومی اداروں (سٹیٹ بینک، حبیب بینک، قومی بچت سکیم ) کے ذریعے اسے فنڈز مہیا کرتی ہے ۔ اس”بڑے” اخبار کی ضغیم اشاعت فقط پچیس تا تیس کاپیوں تک محدود ہے۔یہ عقدہ بھی کھلا کہ اس اخبار کے اجراءکے پیچھے حسب ضرورت جعلی اعدادوشمارپیش کر کے یہ تاثر دینا تھا کہ نواز شریف صاحب کی حکومت میں ملکی معیشت بے انتہا ترقی کر رہی ہے اور بین الاقوامی جریدے بھی اس کے معترف ہیں۔

کل سے ایک اور خبراخبارات کے فرنٹ صفحات کی زینت ہے اور چینلز کی بریکنگ نیوز بنی ہوئی ہے۔خبر کے مطابق وزیراعظم نواز شریف 63 فیصد ریٹنگ کے ساتھ پاکستان کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ تحریک انصاف کے عمران خان دوسرے اور پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو مقبولیت کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہیں ۔ صوبائی حکومتوں میں کارکردگی کے لحاظ سے 79 فیصد ریٹنگ کے ساتھ پنجاب پہلے ، پختونخوا 72 فیصد کے ساتھ دوسرے ، سندھ 54 فیصد کے ساتھ تیسرے اور بلوچستان حکومت 48 فیصد کے ساتھ آخری نمبر پر ہے۔اور یہ انکشافات ایک سروے رپورٹ میں کیئے گئے ہیں جو اسی خبر کے مطابق انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینین ریسرچ اور انٹرنیشنل ریپبلکن اسٹی ٹیوٹ نے جاری کی ہے۔ ان دو اداروں نے یہ سروے ستمبر تا اکتوبر 2016کے دوران کیا اور 4978لوگوں سے انٹرویوز کیئے ۔ کس قدر خوشکن اور تسلی بخش رپورٹ ہے یہ۔ لیکن لفافہ بیزار اور قنوطی صحافیوں کو کہاں چین۔ چناچہ میرا دل کیا کہ اس رپورٹ کی ایک کاپی میرے پاس بھی ہو اور میں ذاتی طور پر اس کا مطالعہ کروں ۔چناچہ میں نے سب سے بڑے اخبار کے رپورٹرصاحب کو فون کیا جنہوں نے صفحہ اول پر یہ خبر دی تھی۔

یقینا رپورٹ دیکھے پڑھے بغیر تو انہوں نے خبر نہ دی ہوگی۔ ان سے درخواست کی کہ ازراہ کرم مجھے اس قابل فخر رپورٹ کی ایک کاپی مرحمت فرمادیں ۔وہ کہنے لگے کہ اتفاق سے رپورٹ میری گاڑی میں پڑی ہے۔ اور گاڑی کوئی صاحب لے کر گئے ہوئے ہیں اور پتہ نہیں کب واپس آئیں لیکن جب بھی آئے میںآپ سے رابطہ کر لوں گا۔ اس کے بعد میں نے اس اخبار گروپ کے نیوز چینل کے بیورو چیف صاحب کو فون کر کے مدعا بیان کیا۔ انہوں نے کچھ دیر کی مہلت لی ۔ کچھ دیر بعد ان کا فون آیا اور فرمانے لگے ۔ "”میں نے ہید آفس سے پوچھا ہے کہ رپورٹ کی کاپی دی جائے لیکن شائد ابھی آپ کہ نہ مل سکے۔ لیکن میں آپ کہ یہ بتادوں کہ رپورٹ ہے کیاچیز۔ جس ادارے نے یہ رپورٹ جاری کی ہے وہ اسے اپنی ویب سائیٹ پر نہیں لگائے گا ۔یہ کانفیڈینشل رپورٹ ہے۔یہ وہ رپورٹ ہے جس میں وہ ملکوں کی فنانشل صورتحال کا اندازہ کرتے ہیں۔کچھ دن پہلے ورلڈبینک کی ایک کمیٹی نے وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی اور اس میں آئی آر آئی نے یہ رپورٹ پیش کی تھی کہ یہ اس وقت پاکستان کی صورتحال ہے۔اس رپورٹ پر لکھا ہوا ہے کہ یہ رپورٹ ریلیز کرنے کے لیئے نہیں ہے۔یعنی یہ confidential outlook reportہے جو وہ حکومتوں کو دیتے ہیں۔میں نے کراچی ہیڈ آفس بھی کہا ہے ، تو شاید کسی طرح یہ آپ کو مل سکے۔”” یہ سب سن کر نہ جانے کیوں اسحق ڈار بہترین وزیر خزانہ کا ایوارڈ لیتے میری نظروں میں گھوم گئے۔ کچھ دیر بعد میری نظر پڑی تو دنیا کا ایک بہترین نیوز چینل بھی یہی خبر چلارہا تھا۔ میں نے لاہور فون کر کے دنیا کے اس بہترین نیوز چینل کے ڈائریکٹر نیوز صاحب سے رپورٹ کے لیئے درخواست کی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس تو کوئی رپورٹ نہیں۔ ہم تو ایک نیوز ایجنسی کی خبر پر خبر چلائی ہے۔ اگلا فون میں نے مذکورہ نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر صاحب کو فون کیا ۔ انہوں نے اپنے ایک رپورٹر کا نمبر دیا کہ اس سے ملے گی۔ اس رپورٹر نے کہا کہ جن صاحب کے پاس ہے وہ پتا نہیں کہاں گئے ہیں۔ ایک اور صاحب کہ وسیع ذرائع رکھتے ہیں انہیں فون کیا لیکن وہ بھی اسی رپورٹ کی تگ و دو میں مایوس بیٹھے تھے۔ اسحق ڈار مجھے پھر ایوارڈ لیتے نظر آنے لگے۔

اگر خدا نخواستہ یہ رپورٹ بھی اسحق ڈار کے ایوارڈ جیسی کوئی چیز نکلی تو ۔۔۔؟ یہ سوچ کر میرا دل زور سے دھڑکا۔ رہی سہی کسر شوکت پراچہ صاحب کے پروگرام میں قطری سفیر نے قطری خط سے لاتعلقی کا اظہار کر کے پوری کر دی۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میرے ملک کے وزیر اعظم پر کوئی انگلی اٹھائے۔ کوئی انہیں کرپٹ کہے ۔ کوئی انہیں چور کہے۔ میں جانتا ہوں وہ بہت درگزر کرنے والی طبیعت کے مالک ہیں ۔ لیکن ہمیں برا لگتا ہے۔ لاج آتی ہے۔ میرا خیال ہے کچھ تو میاں صاحب کا ستارا گردش میں ہے اور کچھ دشمنوں کا کیا کرایا ہے۔ ہو سکتا ہے کسی نے جادو ٹونہ کر دیا ہو۔ حاسدوں کا کیا اعتبار۔ کالے منہ والوں کو چیک کرنا چاہئے ، کیوں کہ جلنے والے کا منہ کالا۔ اور میاں صاحب آپ براہ کرم چند کالے بکرے اور ایک دو اصیل کالے مرغے کسی بابے کی نظر کریں۔ تاکہ سب اپنے اپنے منہ دھیان لگیں اور آپ کو چین لینے دیں۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے