ہمارے ”مولانا“ سلیم اللہ خان رح

یہ ایک درس گاہ کا منظر ہے، بخاری شریف کا درس جاری ہے، استاذ محترم کے پاس دوران درس سوالات کی پرچیاں آتی ہیں، ایک پرچی پڑھتے ہی چہرے پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے، قدرے سیدھے ہوکر بیٹھتے ہیں اور اپنے مخصوص لہجے میں کہتے ہیں:”مولوی صاحب !یہ پرچی جن صاحب نے بھیجی ہے اور جو بھاری بھرکم سوال کیا ہے، انہیں اگر میں کہوں کہ آپ کے سامنے کھڑے ہوجائیں تو آپ سب ہنس پڑیںگے“۔

اور یہ کہہ کر آپ خود ہنس پڑے۔ پھر مولانا وسیم راﺅ کی جانب اشارہ کرکے فرمایا! ”مولوی صاحب کھڑے ہوجائیے“۔ وہ تو سر جھکاکر کھڑے ہوگئے اور پوری کلاس میں ہنسی کا طوفان آگیا۔ یہ 1995ءکا قصہ ہے ،درس گاہ جامعہ فاروقیہ کی ہے۔ اور استاذ محترم حضرت مولانا سلیم اللہ خاںؒ کا درس ہے۔ یہ تھے ہمارے ”مولانا“۔ یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب کم از کم جامعہ فاروقیہ کے عرف تک ”مولانا“ یا زیادہ سے زیادہ ”بڑے مولانا“ ایک ہی تھے۔

مولانا کی شخصیت کے اجزا ءکچھ اس قسم کے تھے کہ بہ ظاہر آپ کا رعب انسان کی ہمت سلب کرلیتا تھا اور یہ بات حقیقت بھی تھی کہ آپ مزاجاً سخت تھے، خصوصیت سے ابتدائی عہد کے فضلا گواہ ہیں کہ آپ اپنی سختی کے اظہار کے لئے تمام مروج طریقے استعمال کرتے تھے، مگر یہ سب چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی چلی گئیں، ہاں رعب باقی رہا، بلکہ شاید اس میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ یہ رعب نئے افراد کے لئے حجاب بن جاتا اور عادی ہوجانے والے پھر قرب کی عنایتوں اور شفقتوں سے محظوظ ہوتے۔

ایک بار عرصے بعد ملاقات ہوئی، میں نے نام بتایا، عزیزالرحمن، بولے” کون سے عزیزالرحمن؟“ اس وقت ہمارے ساتھی اور ہم دم دیرینہ مولوی ڈاکٹر اظہر سعید بھی ساتھ تھے، بلکہ یوں کہیے کہ میں ان کے ساتھ تھا کہ وہی اس ملاقات کے محرک بنے تھے۔ وہ میرے بولنے سے قبل بول پڑے اور میرا تعارف کردیا کہ ہمارے ساتھی اور فلاں فلاں ہیں۔ مولانا ایک دم خاموش سے ہوگئے۔ میں سمجھ گیا کہ انہیں اس قدر تاخیر سے حاضر ہونا اور ملنا پسند نہیں آیا۔ میں نے فوراً اپنے انداز میں مزاح پیدا کرکے بات آگے بڑھائی اور کہا کہ” آپ سے ملاقات اور آپ کی زیارت مسلسل ہوتی رہی ہے، تعارف کی نوبت نہیں آئی“۔ پھر بھی خاموش رہے تو میں نے جلدی جلدی بتایا کہ فلاں موقع پر فلاں جگہ ملا اور فلاں فلاں جگہ آپ سے مصافحہ کیا۔ تب فوراً بولے کہ” ان مواقع پر اپنا تعارف کیوں نہیں کرایا آپ نے؟“ میں نے کہا حضرت دو وجوہ سے، ایک تو رش ہوتا ہے، سب مصافحے کے لئے لپکتے ہیں، ہمیں ایسے موقع پر آگے بڑھنا اچھا نہیں لگتا۔دوسرے آپ کو زحمت ہوتی ہے، اس خیال سے بھی میں پیچھے ہی رہتا ہوں۔

بس اس کے بعد التفات بڑھ گیا اور مسلسل گفتگو کرتے رہے۔ میں نے اپنے ادارے کی ایک دو کتابیں پیش کیں تو فرمانے لگے کہ ہم تو آپ کی تحریریں شوق سے پڑھتے ہیں اور طلبہ کو نقل بھی کراتے ہیں۔ اس وقت چند اخبارات میں کبھی کبھی کچھ چیزیں چھپ جاتی تھیں۔ اب تو ملازمت اور انتظامی مکروہات نے لکھنے پڑھنے سے تقریباً دور ہی کردیا ہے۔ میرے لئے خوشی کے ساتھ ساتھ ندامت کی بات بھی تھی کہ میں انہیں یاد تھا، پورے تعارف کے ساتھ یاد تھا اور استاذ محترم کی جانب سے التفات بھی موجود تھا، میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے چند مضامین سیرت کا مسودہ پیش کیا۔ یہ سات مضامین تھے، مختلف مواقع پر سیرت کانفرنسوں میں پیش کئے تھے اور ان کے موضوعات ہماری عملی ضرورتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لئے ان کا نام ”تعلیمات نبوی ﷺاور آج کے زندہ مسائل“ تجویز کیا گیا تھا۔ خواہش یہ تھی کہ اس کتاب پر مولانا کچھ تحریر فرمادیں۔ مولانا نے خوشی سے حامی بھری اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب چند روز بعد خود مولانا نے زحمت فرماکر فون کیا اور بتایا کہ” وہ تحریر لکھ لی ہے“۔ میں نے کہا میں حاضر ہوتا ہوں، وقت طے کیا۔ عصر بعد کا وقت ملا، میں حاضر ہوا تو دفتر میں ہی وہ تحریر موجود تھی۔ مجھے ہاتھ میں دی اور کہا پڑھو، میں نے پڑھی اور رکھنے لگا تو فرمایا کہ ”سب ٹھیک ہے؟ “در اصل اس میں ایک دو تجاویز دی گئی تھیں اور مولانا ان پر میرا رد عمل دیکھنا چاہتے تھے۔ میرے لئے تو وہ تحریر سعادت بھی تھی اور اعزاز بھی، میرا اس پر اس سے زیادہ کیا رد عمل ہوتا۔

در حقیقت یہ خورد نوازی تھی اور استاذ کا درجہ ناپنے کا یہی ایک درست پیمانہ ہے کہ وہ کس قدر فیض رساں طبیعت کا حامل ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ مولانا برگد کا نہایت گھنیرا درخت تھے مگر ایسا برگد جس کے نیچے پہلی بار رویدگی دیکھی گئی۔ ورنہ عام طور پر برگد کے تلے خس و خاشاک کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ہمارے مولانا نے خود پیچھے رہ کر لوگوں کو آگے بڑھایا، کچھ آگے بڑھے اور اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر نمایاں بھی ہوئے، کچھ نے آپ کے اس مزاج کو استعمال بھی کیا، یہ تو ظرف ظرف کی بات ہے۔ اس سے برگد کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے؟ وہ اپنے وظیفہ ¿ فیض رسانی پر کاربند رہتا ہے۔

مولانا کا مزاج بیک وقت شاہانہ بھی تھا اور فقیرانہ بھی۔ لوہارو ایک متمول ریاست تھی، آپ کی پیدائش وہاں ہوئی، وہ ایک چھوٹی ریاست تھی، وہاں کے ریاستی مزاج کا اثر لازمی امر تھا، آپ کی نفاست، سلیقہ شعاری اور تمکنت، ٹھہراﺅ اور وقار میں یقینا اس کا اثر رہا ہوگا، اسی کو ہم نے شاہانہ مزاج سے تعبیر کیا ہے، مگر مجموعی طور پر آپ تعیش پسند کبھی نہیں رہے۔ ساری زندگی نہایت سادگی سے دو حجروں میں بسر ہوئی۔ تمام سہولتیں میسر ہونے کے بعد اس فقیری کا اپنا مزا بھی ہے اور اپنا مقام بھی۔ یہ برتنے کی چیزیں ہیں، بیان کرنے کی نہیں، ہاں ان کے اثرات ضرور محسوس کئے جاسکتے ہیں۔

مولانا کی سادگی بھی غضب دھاتی تھی، ایک بار حاضر ہوئے، چائے منگوائی، چائے کا سامان الگ الگ آیا، ٹی بیگ، گرم پانی، شکر اور خشک دودھ، میں نے آگے بڑھ کر اپنے لئے چائے بنانی شروع کی تو مجھے فرمانے لگے، ”یہ شکر ہے، اور یہ خشک دودھ ہے، حسب ذوق ملالیجےے“ یقین فرمائیے، ان کے مخصوص لہجے سے یہ جملہ سننے کا اپنا ہی لطف تھا، بڑی دیر تک بلکہ مدت تک ہم یہ جملہ احباب میں دہراتے اور حظ اٹھاتے رہے۔ آہ کیا دن تھے۔
یہ بھی کتنوں کو علم ہوگا کہ مولانا آئس کریم بڑے شوق سے کھاتے تھے اور اس کا بڑا عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ ایک بار حاضری ہوئی تو حسب روایت چائے منگوائی، جب ہم چائے پی چکے تو مجھے دیکھ کر مسکرائے اور اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں کہنے لگے کہ” اوفوہ ہم بھول گئے، ہم تو آپ کو آئس کریم کھلانا چاہتے تھے“۔ میں ایسے میں کیسے خاموش رہتا، فوراً کہا کہ ایسی کیا بات ہے، ہم اس نیک مقصد کے لئے پھر حاضر ہوجائیںگے۔ میں نے یہ جملہ ایسے ادا کیا کہ سن کر مسکرانے لگے اور خلاف معمول دیر تک ہنستے رہے۔

آپ کو آج کے طبقہ علما ءسے دو چیزیں بہت نمایاں کرتی تھیں، ایک آپ کی جفاکشی اور سخت کوشی اور دوسرے قلیل خوراکی۔ آپ سے کبھی اپنے کسی معاملے میں تعلی پر مبنی کوئی جملہ نہیں سنا، سوائے اس کے کہ ایک بار دوران درس فرمانے لگے کہ” بھئی مولوی صاحب مجھے آپ حضرات پر کوئی اور فوقیت ہو نہ ہو مگر کم کھانے میں آپ مجھ پر فوقیت نہیں رکھتے، میں ایک دو چپاتی پر پورے 24 گھنٹے گزارسکتا ہوں۔ “اور آپ کی اس مشقتِ زندگی کے تو ہم سب عینی شاہد ہیں کہ پیرانہ سالی میں بھی کیا عزم و حوصلہ تھا کہ طویل طویل سفر بھی نہایت بشاشت سے کرلیتے۔ پھر ایک خوبی یہ تھی کہ انسان بڑا ہوجائے یا حالات اسے بڑا بنادیں، دونوں صورتوں میں اس کا دائرہ سمٹ جاتا ہے اور اس کا آنا جانا بھی محدود دائرے سے باہر نہیں ہوپاتا۔ مولانا کو کوئی بلاتا ، کہیں بلاتا اور کبھی بلاتا آپ جانے پر فوراً آمادہ ہوجاتے۔ چند برس پیشتر خواجہ خان محمد رحمہ اللہ کی خانقاہ کندیاں میں رمضان المبارک گزارا، یہ باتیں اب کہانیاں محسوس ہوتی ہیں۔ چند برس بعد شاید ان پر کسی کو یقین بھی نہ آسکے، مولانا نے اپنی ہمت اور عزم کے بل پر یہ سب کرکے دکھایا۔ سخت ترین موسم میں ملتان کی گرمی میں امتحانات کے بعد نتائج کی تیاری کے عمل کی نگرانی خود کرتے اور جس موسم سے نوجوان بھاگنے کی راہیں تلاش کررہے ہوتے وہاں مولانا دل جمعی سے کار خدمت میں مصروف رہتے۔

ہمارے ہاں چلتے چلتے زہد اور علم کے عجیب و غریب تصورات قائم ہوچکے ہیں۔ عالم اور صوفی اسے سمجھا جاتا ہے جس کا ذوق بالکل ختم ہوچکا ہو اور جو جس قدر انسانی دائرے اور بشری تقاضوں اور خصائص سے ماورا ہو اسی قدر بڑا بزرگ سمجھا جاتا ہے، یہ نہ شریعت کا حکم ہے، نہ طریقت کا، نہ یہ اسلاف کی روایت ہی رہی ہے۔ یہ رہبانیت تو ہوسکتی ہے اسلام کا اس سے کیا علاقہ؟ مولانا اس معنیٰ میں زندہ دل تھے کہ حسِ مزاح خوب رکھتے، ہنستے بھی تھے، ہنساتے بھی تھے۔ یہ اور بات کہ مصروفیات اور عوارض میں اس کا موقع کم کم ملتا۔ اور آپ کا ذوق نہایت بلند تھا۔ آخر عمر کا تو پتہ نہیں۔ اس سے قبل مدتوں آپ نے کبوتر پالے اور اس شان سے کہ ان کی رکھوالی اور خبر گیری کے لئے خود وقت نکالتے۔ آپ کو ان کے بارے میں معلومات بھی خوب تھیں اور جن بے تکلف تلامذہ کو ہم ذوق پاتے، ان سے اپنی معلومات بھی بیان کرتے۔ ہمیں نہ اس کا کبھی ذوق رہا، نہ کبھی اتنا وقت ہی ملا کہ بار بار مولانا کی خدمت میں حاضری دیتے، سو ان لطائف سے زیادہ آشنائی نہیں، مگر اس ذوق سے واقفیت ضرور ہے۔

مولانا کا حافظہ غضب کا تھا، اس کی دسیوں اور درجنوں نہیں سیکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں، مگر یہ باتیں آپ سے واقف ہر ایک جانتا ہے، البتہ ایک دو واقعے ضرور تازہ کرنے چاہئیں۔ ایک بار سبق عروج پر تھا، آخر کے ایام تھے، بخاری شریف کا شنبہ جاری تھا، مولانا صبح میں کلاس آئے اور پچھلی صفوں کے ایک طالب علم کو ہاتھ سے اشارہ کیا کہ باہر جاﺅ، وہ خاموشی سے اٹھا اور چلاگیا۔ مولانا یہ عمل اس وقت کیا کرتے جب کوئی طالب علم بلا اطلاع ایک روز قبل غیر حاضر ہوجاتا، جب وہ طالب علم باہر جانے لگا تو کسی نے کہا کہ یہ تو کل موجود تھا، مولانا نے سنی ان سنی کردی، پھر کسی طالب علم نے ایسا ہی کچھ کہا اور پھر کسی نے پرچہ لکھ دیا۔ مولانا نے سبق ختم کیا اور فرمایا۔”یہ صاحب کل اتنے بج کر اتنے منٹ پر پیشاب کے لئے چھٹی لے کر گئے اور پھر واپس نہیں لوٹے، حالانکہ اس کے بعد ایک گھنٹے سے زیادہ سبق جاری رہا۔“ تصور کیجےے کہ ایک کلاس میں 200 سے زائد طلبہ میں، سبق تین چار گھنٹے سے مسلسل جاری ہے۔

پچھلی صفوں کا ایک طالب علم، جو بہ راہ راست سامنے بھی موجود نہیں ہے، کسی ستون کی اوٹ میں بیٹھتا ہے، اس پر کس قدر گہری نظر ہے، حتیٰ کہ اس کے قریب بیٹھنے والے طلبہ کو بھی اس کا علم نہیں ہوسکا، مگر وہ مولانا کی نظر سے نہیں چھپ سکا۔ ان ہی ایام میں کسی دن کا قصہ ہے، مغرب کے بعد کلاس شروع ہوئی تو عشا ءکی نماز کھڑی ہونے سے چند لمحے قبل ہی وقفہ ہوا، صرف اتنا وقت تھا کہ ہم بھاگ کر تکبیر اولیٰ میں شریک ہوسکے۔ اگلے روز کلاس میں داخل ہونے سے قبل ہی علم ہوگیا کہ 20،25 طلبہ کے لئے کلاس میں بیٹھنے پر ممانعت ہے۔ کلاس میں کافی تشویش رہی، مولانا کا چہرہ بھی دوران کلاس جلال سے پر رہا، دو تین روز بعد عقدہ کھلا کہ عشاءکی نماز سے قبل سبق کے اختتام پر یہ طلبہ آنکھ بچا کر مدرسے سے باہر چلے گئے۔ مولانا کو غصہ یہ تھا کہ نماز تیار تھی، انہوں نے چائے پینے کے لئے نماز کی جماعت ترک کردی۔ اب دیکھئے وہ کتنا مختصر لمحہ تھا، جب آپ نے طلبہ کو دیکھ بھی لیا، پہچان بھی لیا اور یاد بھی رکھا۔

آپ سبق کے دوران طویل طویل روایات سند کے ساتھ زبانی بیان فرماتے۔ رواة کے شجرے پیش کرتے اور یہ سب بلا تکلف ہوتا۔ یہ سب معلومات خاص ترتیب سے آپ کے ذہن میں محفوظ تھیں، وقت آنے پر از خود نکلتی چلی جاتیں۔
آپ بہ ظاہر جس قدر رعب دار شخصیت کے حامل تھے اندر سے اتنے ہی متحمل مزاج رکھتے تھے، خصوصاً آپ اگر کسی کی بات کو وزن دیتے، قطع نظر اس کے کہ وہ اس وزن کے قابل ہوتا، یا نہیں، توآپ سب کو پوری توجہ دیتے، ایک بار کچھ معاملات ایسے سامنے آئے کہ مجھے خیال ہوا کہ مولانا کو اس جانب توجہ دلانا ضروری ہے، میری حاضری میں ہمیشہ فاصلہ حائل رہتا، یا یہ تکلف کہ مولانا کو میری وجہ سے زحمت نہ ہو، اس وقت قسمت عروج پر تھی، مکرمی مولانا ولی خان المظفر سے کسی مسئلے میں بات ہوئی تو ان کے پروگرام کا علم ہوا۔ میں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ میں بھی مولانا کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں تو انہوں نے دعوت دے دی کہ میں وقت لے چکا ہوں، ساتھ چلتے ہیں۔

ہم حاضر ہوئے تو مولانا نے اوپر اپنی رہائش پر بلالیا۔ پر تکلف چائے سے تواضع کی، وہ تو اپنی جگہ مگر میں نے اجازت لے کر مدعا عرض کرنا شروع کیا اور حسب عادت بولتا چلاگیا۔ اب یاد نہیں کہ کیا کچھ کہا، البتہ یہ ضرور کہا کہ آپ کی شخصیت مرکزی حیثیت رکھتی ہے، آپ کو آگے بڑھ کر صورت حال پر اقدام کرنا چاہئے، بس اس پر بولے کہ” میری کیا حیثیت، میں کیا کرسکتا ہوں“۔ میں نے پھر جسارت کرتے ہوئے اصرار کے ساتھ کہا کہ نہیں، آپ بڑے ہیں اور اللہ نے آپ کو بڑا بنادیا ہے، اب یہ آپ کی ذمے داری ہے۔ مجھے تو احساس نہیں ہوا، البتہ مکرمی مولانا ولی خان المظفر نے بعد میں بتایا کہ مولانا تمہاری گفتگو کے دوران مسلسل نوٹس لیتے رہے اور انہوں نے تمہاری باتیں نہایت توجہ سے سنیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میری باتوں میں بہت سا حصہ ایسا تھا کہ شاید مولانا کے مزاج کے یک سر خلاف تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے سنا، نہ صرف سنا، بلکہ مجھے ٹوکا تک نہیں او رپھر انہیں نوٹ بھی کیا۔ وہ مجھ جیسے کی باتیں اگر اس اہتمام سے سنتے تو اصحاب رائے کو کتنا وزن اور توجہ دیتے ہوںگے۔ اسی دوران کا قصہ ہے کہ اپنے پوتے غالباً مولوی معاذ کو بلایا، ایک بریف کیس نکلوایا اور اس میں سے سبز رنگ کا رومال یہ کہہ کر عطا کیا” آپ میرے گھر پر پہلی بار تشریف لائے ہیں۔“ میں نے بھی جرات کرتے ہوئے کہا کہ اسے میرے سر پر رکھ دیجیے۔

مولانا سادہ مزاج تھے، ہر ایک کی سن لیتے اور ہر سنانے والے کو سچا بھی سمجھ لیتے۔ اللہ والے ایسے ہی ہوتے ہیں، شفاف اور دوسروں کو شفاف سمجھنے والے۔ یہ تو ہم جیسوں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ ان کی سادگی سے فیض اٹھائیں، اسے استعمال نہ کریں۔ قربت رکھنے والے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ انہیں یہ بات سمجھائی نہیں جاسکتی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے