سردار عتیق، مشرقی تہذیب کی آبرو

13فروری کی شب بالآخر جب میں راولپنڈی پہنچا تو حضرت ظہیر احمد کے طبیعت کی نفاست نے ہمیشہ کی طرح اس طرف کھینچے رکھا کہ قیام انہیں کے ہاں ہو. سو ایسا ہی ہوا. رات ڈھل چکی گفتگو کا سلسلہ موضوع بدل بدل کر جاری ہو چلا. گفتگو کے بیچ میں جناب ظہیر کے لطیف ذوق سے یہ تجویز پھوٹی کہ نصرت فتح علی کو سنا جائے. عرض کیا زہے نصیب پر مگر سننے کو لازم ہے کہ یکسوئی کا اہتمام کر لیا جائے. موسیقی سننے کا درست قرینہ یہی ہے کہ ہردهن کو احساسات میں جذب ہونے کا بھرپور موقع دیا جائے. یعنی موسیقی سننے کا کام ہی اتنا نازک ہے کہ سانس بهی آہستہ لیے بنا بات بن نہیں پاتی. سو سنی جائے توروح و احساس کی کامل حضوری کے ساتھ سنی جائے. سو یکسوئی ہو چلی اب موسیقی کی دهنیں چھیڑ دی گئیں، نصرت کی فنکاری کا جادو ٹھیک اوپر سر کے چڑھ کر بولنے لگا. "میرے رشک قمر” ،” تم نہ جان پاو گے” جب چھڑی تو بس مزا آگیا.

جناب ظہیر سے احباب یقین ہے بے خبر نہ ہوں گے. کچھ بے خبروں کو البتہ بتایا جا سکتا ہے کہ جناب ظہیر کی شخصیت کا خمیر ذہانت و متانت کو ملا کر بنا دیا گیاہے. ان کے ذوق کی وسعت کی کہانی المختصر یہ ہے کہ تنگ مزاجی سے ہمیشہ تنگ رہتا ہے. گزشتہ دنوں کی بات ہے کہ چل پڑی باتوں میں یہ بات بهی چل پڑی کہ جناب سردار عتیق احمد خان صاحب سے IMG-20170213-WA0003آئندہ کسی ملاقات کو اکٹهے ہی جانا ہے. سردار صاحب سے رابطے پر معلوم ہوا کہ وہ یہیں راولپنڈی موجود ہیں اور ان سے ملنا پوری طور ممکن ہو چکا ہے. سو اتوار ان سے طے شدہ ملاقات کو ہم مجاہد منزل پہنچے. اس سب سے مدعا، ملاقات کے سوا خاص اک مسئلہ میں، مشاورت بهی تهی. سو ملاقات و مشاورت کا دورانیہ کم مگر اہم تر رہا.

سردار صاحب کے علم پسند ذوق سے لگی امیدیں شکر ہے کہ بندهیں ہی رہیں. اکثر یوں بھی ہوا کہ کہیں کسی کو بڑا جان کر چند قدم بڑھے تو جانا کہ صاحب بہرحال انسانوں کے بڑے تو نہیں ہیں. سردار صاحب کا معاملہ مگر اس سے سوا پایا. فلک سیری میں کبهی انہیں خاک نشینی کے اطوار نہیں بھولے. مناصب کی بلندی پر یہ انسانی عظمت کو حاوی رکهتے ہیں. منصب سے یہ نہیں تاہم منصب ان سے عزت ضرورپاتا ہے. عہدوں کا پھیلاو اکثر لوگوں کی انسانیت سکیڑ کر رکھ دیتا ہے. مگر مجاہد اول کی تربیت کا یہاں یہ اثر بچشم سر دیکھا کہ وزارت عظمی کے عہدے پر برسوں رہ کر بھی زمین پر چلتے انسان انہیں صاف دکھائی دیتے ہیں. خدا ان کی بینائی سلامت رکھے کہ باریکیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں. مشرقی تہذیب و وقار ان کی شخصیت کی صورت میں گویا مجسم ہو چلا ہو. سیاست کے افق پر سچ کہیے تو ان ایسے علم دوست افراد نایاب ہو چلے ہیں.

سیاسی اغراض و اہداف سے قطع نظر ایسی شخصیات کی شخصی عظمت تسلیم کر لینا کسی اخلاقی فریضے سے کم نہیں. مطالعاتی ذوق نے انہیں باوقار کلام اور با معنی سکوت کے اداب سکها رکھے ہیں. ان کے جذبات پر ان کی ذہانت غالب رہتی ہے. گفتگو پر شائستگی کا پہرہ بٹھائے رکھتے ہیں. دوران گفتگو کہنے لگے "قوم اخلاقی زوال میں مبتلا ہو چلی”. میدان سیاست میں جس بے دردی بلکہ بے شرمی سے اخلاقی ساکھ سے بے نیازی برتی گئی ایسے میں کشمیر کے ایک معتبر سیاستدان کا یہ جملہ ہماری نظر میں صدبار لائق تحسین ہے. اس جملے کے پیچھے تدبر کا سرمایہ اور آگے امید کانور، جس جس کو دیکھ سکنے والی آنکھ ملی ہو آئے اور دیکھ جائے. گفتگو کے بیچ میں کبھی ان کو میں نے سیاسی مخالفین کا نام لے کر رقیق جملے چپکاتے نہ دیکھا. قوم اپنی جب بدتہذیب قائدین کرام کی گالم گفتار پر کودکودکر ہلا شیری دینے میں مگن ہو تو ناگزیر ہوجاتا ہے کہ اخلاقیات پر اصرار کیے رکھنے والے، مٹھی بھر نفوس کی متانت کی تحسین کی جائے.

سچ یہ ہے کہ اپنی تہذیب و اخلاقیات سے یکسوئی سے پیوستہ لوگ دھرتی کا نمک ہیں. ان کے جیتے جی ان کی توقیر لازم ہے. ان کی عظمت کے گیت گانے کو موت کا انتظار بے معنی ہے. شخصیت کے حسن کا مشاہدہ اور اس کا اعتراف اس سے مشروط نہیں کہ کسی شخصیت سے مکمل فکری ہم آہنگی بھی ہوجائے. سچائی کی راہ یہی ہے کہ فکر ونظر کی راہیں جدا ہونے پر بھی شخصیت کے اعتراف کی خو اپنائی جائے. یہی احساس ہے کہ دل اپنا ہر طرف کھنڈر بنی انسانیت میں کہیں کوئی باغ و بہار شخصیت دیکھتا ہے تو کھل اٹھتا ہے. احباب تمہی کہیے کہ جب قیادت بدتہذیبی میں بھی قائد بن بیٹھے تو قیادت کو تہذیب سے جڑا رکھنے والوں کی تحسین لازم ہے کہ نہیں؟ خلق خدا کے روبروجو گواہی ہم رقم کر بیٹھے خبر ہے کہ گوناگوں اندیشوں کی دھند میں لپیٹ کر رکھ دی جائے گی. لوگ ان الفاظ میں سے بدنیتی و غرض مندی تک دریافت کرنے سے بھی نہ چونکیں گے. میں بهلے کہتا پهروں کے سردار صاحب سے اپنا رشتہ علم دوستی کے سوا کچھ نہیں. قوم یقین کرنے سے قاصررہے گی.

میں شخصیات و احباب پر مضامین لکھنے کی اپنی روش سے آگاہ کر بھی دوں لوگ ماننے کو آمادہ نہیں ہوں گے. ہلکے لوگ، میری آج کی یہ گواہی ہلکی نظر سے دیکھیں گے اور اس سب کو محض مدحت سرائی باور کیے بنا نہ رہ پائیں گے. قصور ان کا نہیں کہ ہمارے ہاں شخصیات کے اعتراف کی جگہ برسوں سے چاپلوسی نے لے رکھی ہے. یہ سب ہمیں خبر ہے کہ یہ سب ہو کر رہے گا، پرمگر اس سے بالآخر بات وہی ثابت ہو کر رہے گی جو سردار صاحب فرما چلے کہ "افسوس ، قوم اخلاقی زوال کا شکار ہو چلی”. سردار صاحب لائق رشک ہے آپ کا وقار بھی اور متانت بھی. مشرقی تہذیب کی آبرو تمہی سے ہے. خدا آپ کو استقامت بخشے. ہم، یہ انسانیت کا تقاضہ جانتے ہیں کہ فکر و سیاست یا نسل و خاندان کے فرق بیچ میں سے نکال کر اس امر کا اعتراف سرعام کرگزریں. ہم نے مناسب جانا، سو سچائی کی گواہی رقم کر ڈالی. اخلاقیات سے بے نیازی کی راہ پر گامزن قوم کی قسمت اسی کے ہاتھ میں سو وہ جس طرح چاہے اس سے سلوک کر گزرے. وە چاہے تو بدگمانیوں کآ ہمالیہ کھاڑ کر ڈالے یا چاہے تو بدگوئی کا طوفان اٹھاتی پهرے. اسے رائی کا پہاڑ بناسکنے کے ہنر سے کون روک سکتا ہے. آج کی یہ سطریں قومی زوال کی جڑوں سے باخبر دماغوں کے نام.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے