حافظ سعید کا نام فورتھ شیڈول میں شامل

لاہور: پنجاب حکومت نے جماعت الدعوہ کے چیف حافظ محمد سعید اور ان کے ایک قریبی ساتھی قاضی کاشف سمیت دیگر پارٹی رہنماؤں کے نام انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کے قانون کے تحت فورتھ شیڈول میں شامل کردیئے ہیں۔

اس کے علاوہ حافظ سیعد کا نام ایکزٹ کنٹرول لسٹ میں بھی شامل کردیا گیا ہے۔

مذکورہ پیش رفت کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے ایک پولیس افسر نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے وفاقی وزارت داخلہ کے حکم پر جماعت الدعوہ کے چیف کا نام اس فہرست میں شامل کیا ہے، جس میں پہلے سے 1450 افراد کے نام موجود ہیں۔

جماعت الدعوہ کے تین دیگر افراد جن کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کیے گیے ہیں ان میں فیصل آباد سے عبداللہ عبید، اور مریدکے کے مرکزِ طیبہ سے ظفر اقبال اور عبدالرحمٰن عابد شامل ہیں۔

وفاقی وزارت داخلہ نے ان 5 افراد کو جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا ‘سرگرم رکن’ قرار دیا ہے، وزارت داخلہ نے سی ٹی ڈی کو ‘ان کے خلاف ضروری کارروائی کرنے’ کی ہدایت کی ہے۔

سی ٹی ڈی افسر نے بتایا کہ گوانتانا موبے سے پاکستان منتقل ہونے والے 3 قیدیوں کے نام بھی فورتھ شیڈول میں شامل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

تاہم افسر نے جماعت الدعوہ کے دیگر رہنماؤں کے نام بتانے سے انکار کیا۔

حافظ سعید کو 30 جنوری 2017 کو ان کے گھر پر نظر بند کردیا گیا تھا، ان کی نظر بندی پر ان کی جماعت اور دیگر سیاسی اتحادیوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔

یہ سول حکومت کی جانب سے ایک انتہائی غیر معمولی پیش رفت تھی جس کی حمایت فوج نے بھی کی، اور متعدد حلقے اس پیش رفت کو سلامتی کی ترجیحات کو تبدیل کرنے سے جوڑ رہے ہیں۔

انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو ‘کالعدم قرار’ دیتے ہوئے اسے فورتھ شیڈول میں شامل کردیں۔

فورتھ شیڈول اے ٹی اے کی شق ہے جس کے تحت ایک مشتبہ شخص کو نگرانی میں رکھا جاسکتا ہے اور اس کو روزانہ مقامی تھانے میں اپنی حاضری ضروری بنانا ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ فورتھ شیڈول میں ان عناصر کو بھی شامل کیا جاتا ہے جو غیر ریاستی سرگرمیوں میں ملوث ہوں، نفرت انگیز تقاریر یا ایسی مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھتے ہوں جنھیں ابھی کالعدم قرار نہیں دیا گیا لیکن ان کی سرگرمیاں عسکریت پسندی کے زمرے میں آتی ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے