بے چینی اور راہِ فرار

پاکستان 9 سال سے جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہو رہا ہے۔ عوام کے نمائندے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔ عدلیہ جتنی مضبوط اور آزاد اب ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔ جمہوری حکومتیں اپنی مدت پوری کر رہی ہیں، بلدیاتی انتخابات بھی ہو چکے ہیں جن سے مقامی حکومتیں بھی تشکیل دی جا چکی ہیں جو لوگوں کے مسائل ان کے گھروں کی دہلیز پر حل کرنے کے لیے سب سے اہم اور بنیادی طریقہ ہے۔

بین الاقوامی رپورٹس اور جریدوں کے مطابق پاکستان میں کرپشن میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ ہماری معیشت بہتر ہو گئی ہے، غربت میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے، حکومت اور فوج کے زبردست تعلقات اور ہم آہنگی کی وجہ سے دہشت گردی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔

اس سب کے باوجود کیا وجہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اور عوام دونوں میں بے چینی ہے؟ آخر کیوں ہمارے حکمرانوں کے قول و فعل میں دھمکی اور اضطراب کا عنصر نمایاں ہو رہا ہے؟ کیوں عوام سیاست دانوں کو پذیرائی بخشنے کے بجائے مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے ہیں؟ کیوں ہماری اعلیٰ عدلیہ کو ملک میں بادشاہت نظر آتی ہے؟ کیوں ملک کا تقریباً ہر ادارہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ کیوں نا انصافی، مالی اور اخلاقی کرپشن خبروں کی زینت بنتی ہے؟

عوامی بے چینی کی وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ جس چمکدار صبح جمہوریت کا خواب انہیں دکھایا گیا تھا، وہ طلوع ہو کر نہیں دے رہی ہے۔ ان کے گلی کوچوں میں لگے کچرے کے ڈھیر بیماریاں پھیلا رہے ہیں لیکن بلدیاتی نمائندے اختیارات اور فنڈز کی کمی کا رونا رو رہے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ میں لوگوں کو حرام جانور کا گوشت کھلایا جا رہا ہے۔ دودھ، گھی، تیل، ادویات زائدالمعیاد اور ملاوٹ شدہ مل رہی ہیں۔ دل کے مریضوں کے اسٹنٹ مہنگے اور غیر معیاری ہیں لیکن وزیراعظم پاکستان کو گمان ہے کہ دنیا کے مہنگے ترین میٹرو منصوبوں پر عوام شاداں اور فرحاں ہیں۔

بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ میں کمی ایک طرف بلکہ بلوں میں اضافہ ہو رہا ہے مگر حکومت یہ لالی پاپ دیے جا رہی ہے کہ اگلے سال ملک سے اندھیروں کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ کوئی پوچھے کہ اگلا سال تو الیکشن کا ہے جس کے بعد نئی حکومت نئی تاریخیں دینا شروع کردے گی، تو آپ کے وعدے کیا ہوئے؟

ریلوے کے عملے کی غفلت سے معصوم بچے زندگی گنوا بیٹھتے ہیں پھر بھی وزیر ریلوے روزانہ سپریم کورٹ کے باہر کھڑے ہو کر سیاست کے اسرار و رموز پر خطبہ دینا نہیں بھولتے۔ اس تماشے کے باعث عوام کی زندگیوں میں سے سکون غائب ہو چکا ہے۔ وہ کوہلو کے بیل کی طرح صبح سے شام کر رہے ہیں اور اپنی فرسٹریشن سڑک پر ایک دوسرے سے الجھ الجھ کر نکال رہے ہیں۔

آپ خبریں دیکھیں آپ کو حکومت کا اضطراب صاف نظر آئے گا۔ حکومت کے نمائندے اور وزراء گلا پھاڑ پھاڑ کر بے پر کی اڑاتے نظر آئیں گے، کبھی وہ حزب اختلاف پر چلاتے ہیں تو کبھی دبے لفظوں میں عدلیہ پر تنقید کر کے اسے دباؤ میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس بات کی اہمیت ہی نہیں کہ وزیراعظم اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے غلط بیانی کر گئے، پھر اگر آئینی و قانونی مصلحتوں اور موشگافیوں سے نابلد عام پاکستانی اسمبلی میں ہوئی ہر تقریر کو غلط بیانی سے تعبیر کرے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟

اپنی اسی کیفیت میں ن لیگ اپنی ہم نوا ہم پیالہ پیپلز پارٹی کو دھمکا رہی ہے کہ پاناما پر اگر سرخ لائن پار کی تو آپ کی فائلیں بھی تیار ہیں لہذٰا پی پی محض نعروں پر اکتفا کرے جا رہی ہے۔ یعنی دنیا کی ہر چیز پر بات کرلیں لیکن کرپشن کا نام لیتے ہوئے سیاسی جماعتیں باہمی مفاد کو مد نظر رکھیں، محض اس لیے کہ سیاست دانوں کی اکثریت مالی بے ضابتگیوں میں ملوث ہے اور اب آہستہ آہستہ سب کے نام سامنے آ رہے ہیں۔

اس صورتحال میں پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکن سیاست دان کی بے چینی بڑھ رہی ہے کہ 2018 کے انتخابات کے لیے زاد راہ جمع ہی نہیں ہو پا رہا کیونکہ سندھ حکومت تو مجموعہ نااہلیت بن چکی ہے۔

عمران خان اس لیے اتنے مضطرب ہیں کہ ایڑھی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود ان کے ہاتھ کچھ نہیں لگ رہا، ثبوت ہونے کے باوجود انتخابی دھاندلی کا معاملہ ٹھپ ہو گیا، دھرنا ٹھپ ہو گیا اب کریں تو کیا کریں۔

حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے باوجود حکومت کو کوئی گزند نہ پہنچا پائے، الٹا پی ٹی آئی کی سیاست کو نقصان ہوا اس لیے عمران خان پاناما اسکینڈل کو ماند نہیں پڑنے دے سکتے۔ باقی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کا مستقبل چونکہ تین بڑی جماعتوں کے حال سے وابستہ ہیں لہذٰا وہ بھی بے چینی کا شکار ہیں۔

سیاست دانوں کے اضطراب کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی نااہلی پر کوئی بھی پردہ ڈالنے کی کوشش کر لیں، ان کے فکر اور افعال کا دیوالیہ پن سامنے آ ہی جاتا ہے۔ اتنے سالوں پر محیط جمہوری دور نے سیاسی اشرافیہ کا کردار عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے اس لیے اب وہ لوگوں کو سیاسی شعبدے بازیوں سے مرعوب کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

کوئی ایجنڈا نہیں ہے کوئی مقصد نہیں ہے بس بیان بازی اور آپس کی بندر بانٹ ہو رہی ہے۔ قومی اور عوامی مسائل اور معاملات پر کسی قسم کی قانون سازی اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے عاری منتخب عوامی نمائندے اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کے لیے مستعد اور یک جان دو قالب ہو جاتے ہیں لیکن جیسے ہی کوئی اہم مسئلہ آئے تو اکثریت ایوان سے غائب ہو جاتی ہے یا وہاں بیٹھ کر اپنی نیند پوری کرتی ہے۔

وزیراعظم پاکستان قومی اسمبلی کے اجلاس میں صرف اس وقت آتے ہیں جب انہیں اپنی حکومت ہاتھ سے نکلتی دکھائی دینے لگتی ہے ورنہ وہ بیرون ملک دوروں یا موٹروے اور میٹرو میں مصروف رہتے ہیں۔

سچ بات یہ ہے کہ عوام اور سیاست دانوں کی سوچ اور زندگیوں میں باہم رابطے کا فقدان ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ خلیج کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

لوگوں نے خود کو دشواریوں اور تکالیف سے ہم آہنگ کرنا شروع کر دیا ہے، بجلی نہیں ہے، جنریٹر لگالو، گیس نہیں ہے، لکڑی پر کھانا پکالو، انصاف نہیں ملے گا، قانون اپنے ہاتھ میں لے لو، میرٹ نہں ہے، رشوت دے دو، پانی نہیں ہے، مضر صحت ٹینکر ڈالوالو، عدم تحفظ کا احساس ہے، اسلحہ خرید لو۔ اور اگر یہ سب نہیں کر سکتے تو ملک سے نکل جاؤ پھر چاہے کنٹینر میں بند ہو کر جانا پڑے یا ویزہ لے کر باعزت طریقے سے۔

یہ مسائل کا حل نہیں راہ فرار ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی توجہ اس جانب ہے ہی نہیں۔

کہتے ہیں خاموشی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے، پاکستان میں بھی عوام چپ ہے لیکن اس کی آنکھوں میں غصہ دکھائی دینے لگا ہے۔ غربت جہالت اور مصائب میں گِھری عوام کے اندر پکنے والا لاوا جب حکمرانوں کی لغزش کی بدولت ابلتا ہے تو فرانس میں انقلاب آتا ہے، شاہ ایران اور زار روس عوام کے غیض و غضب کا شکار ہو کر رسوا ہو جاتے ہیں یا پھر وہ انجام ہوتا ہے جو عرب بہار کے بعد مشرق وسطیٰ کے ممالک میں انتشار کی صورت میں سامنے آیا۔

پاکستان کو ایسی صورتحال سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمارے سیاستدانوں کو حالات کی نزاکت کا احساس کر کے مفاد عامہ پر توجہ دینی چاہیئے ورنہ مستقبل بے یقینی ساتھ لے کر آسکتا ہے۔

بشکریہ ڈان

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے