امریکیوں کی پاکستان میڈیا پر نگاہ

امریکی پاکستان میڈیا پر بہت گہری نگاہ رکھتے ہیں

گزشتہ برس سولہ مارچ کو وکی لیکس نے ہیلری کلنٹن کی تیس ہزار سے زائد ای میلز کو اپ لوڈ کر دی تھیں۔ سفارت کاروں کی اندرونی دنیا میں جھانکنے کے لیے یہ میلز پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں سے بعض ای میلز آنکھیں کھول دینے والی ہیں۔ شام سے لے کر عراق اور افغانستان سے لے کر پاکستانی اقتدار کے حلقوں کے بارے میں ان میں تفصیلات ہیں۔ ای میلز سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی حکام اپنے ہدف پر کس قدر گہری نظر رکھتے ہیں اور کس طرح ان کا نفسیاتی جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ ان ای میلز میں درجنوں امور پر گفتگو کی گئی ہے لیکن میں صرف دو کی مثال دوں گا کہ ان امریکی سفارتی حلقوں کی نگاہ کس قدر گہری ہے۔ ایک مقتول صحافی سلیم شہزاد کے حوالے سے ہے اور ایک کرزئی صاحب کی زیر مطالعہ کتاب کے حوالے سے۔

ان ای میلز سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پاکستان میں امریکی سفارت خانے کا میڈیا سیل کس قدر ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر پاکستانی اخبارات، میڈیا چینلز اور ٹاک شوز کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ای میلز میں آپ کو ٹاک شوز کے نام اور ان میں شرکت کرنے والے مہمانوں کے نام تک ملتے ہیں اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ انہوں نے کس پروگرام میں بیٹھ کر کیا کہا تھا۔ کسی ایک خبر پر پاکستان کے انگلش میڈیا کا کیا موقف ہے اور اردو میڈیا کیا خبر دے رہا ہے۔ یہ سب کچھ روزانہ کی بنیاد پر جمع کیا جاتا ہے اور آگے بھیج دیا جاتا ہے۔

ہلیری کی ان ای میلز میں ایک میل مقتول صحافی سلیم شہزاد کے بارے میں ہے، جو جیک سلیوان کی طرف سے چار جولائی دو ہزار گیارہ کو لکھی گئی ہے۔ جیک ہلیری کے ساتھ ساتھ دیگر اہم سفارتکاروں کو لکھتے ہیں، ’’ایرک شمٹ ( نیو یارک ٹائم کے سینئر صحافی) نے مجھے اطلاع پہنچائی ہے کہ کل ایک اسٹوری چھپنے والی ہے، ’یو ایس جی‘ کی معلومات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سلیم شہزاد کے قتل کا حکم آئی ایس آئی (پاکستان کا خفیہ ادارہ) نے دیا تھا۔ اس کی موت اتفاقاﹰ نہیں ہوئی جیسا کہ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں۔ ’یو ایس جی‘ اس سے آگاہ ہے کہ اس قتل کا حکم ہائی لیول سے آیا تھا۔ ’یو ایس جی‘ اب یہ طریقہ تلاش کر رہی ہے کہ ان معلومات کا مناسب جواب کیسے دینا ہے۔‘‘

اس میل میں سلیوان مزید لکھتے ہیں، ’’ایرک نے بتایا ہے کہ اسے یہ معلومات اس شخص سے ملی ہیں، جس کی اس اسٹوری تک رسائی ہے۔ میں نے گزشتہ ہفتے ’آئی این آر‘ کے ساتھ یہ معاملہ ڈسکس کیا تھا اور اب مزید بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ۔۔۔۔ یہ اسٹوری چھپنے کے بعد ہمیں مشترکہ پریس ( موقف) اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہم اس میں چھپی معلومات پر بات نہیں کریں گے بلکہ یہ کہیں گے کہ ہم اس بارے میں ’بہت فکرمند‘ ہیں۔ ہمیں ان دیگر اقدامات کے بارے میں بھی بات کرنی ہوگی، جن کے اٹھانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘‘

اس کے علاوہ کئی دوسری میلز بھی ہیں، جن میں سلیم شہزاد کیس کے حوالے سے نیویارک ٹائمز کے ایرک شمٹ اور امریکی حکومتی اہلکاروں کے مابین معلومات کے تبادلے کا پتہ چلتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی اسٹوری چھپنے سے پہلے ہی امریکا باخبر ہو جاتا ہے اور پریس کے ساتھ کس قدر مل کر کام کیا جاتا ہے اور یہ کہ دباؤ کے لیے میڈیا کس قدر کارآمد ہتھیار ہے۔ جو بات سفارتی سطح پر نہیں کی جا سکتی، اسے دباؤ بڑھانے کے لیے میڈیا کے نامعلوم ذرائع سے کہلوا دیا جاتا ہے۔

ایک میل پاکستان میں تعینات سابق امریکی سفارت کار رک اولسن کرزئی کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ کرزئی 2013ء میں ایک کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی حکام کیسے اس کتاب کے کرزئی کے ذہن پر ممکنہ اثرات کے حوالے سے پریشان ہو جاتے ہیں اور اپنی پالیسی مرتب کرنے کا سوچتے ہیں۔

رک اولسن لکھتے ہیں، ’’ ڈیوڈ، میں نے تمہیں کچھ معلومات دینی ہیں، میرے خیال سے تم ان چند لوگوں میں سے ایک ہو، جو تاریخ کے حوالے سے اس کی اہمیت سمجھتے ہو۔ میں گزشتہ ہفتے دبئی میں سعد محسنی سے ملا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس نے کرزئی کو William Dalrymple کی کتاب ’’ریٹرن آف اے کینگ‘‘ دی ہے اور کرزئی رات کو دیر تک جاگ کے یہ کتاب پڑھ رہا ہے۔ محل کا اندرونی حلقہ سعد سے پوچھ رہا ہے کہ تم نے کرزئی کو کیا چیز دے دی ہے۔ (یہ کتاب پہلی انگریز افغان جنگ اور شاہ شجاع کی واپسی کے بارے میں ہے۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ شاہ شجاع کرزئی کے دل میں بستا ہے۔) بدقسمتی سے کتاب کے آخری بیس صفحات پہلی افغان جنگ اور گزشتہ عشرے سے ہماری کوششوں کا سطحی موازنہ کرتے ہیں۔ یہاں واضح طور پر کرزئی کا شاہ شجاع سے موازنہ ہوتا ہے۔ اس میں ساتھ ساتھ یہ بحث بھی چلتی ہے کہ بہتر ہوتا اگر شاہ شجاع برطانوی افواج کو باہر پھینک دیتا۔ میرے خیال سے صدر سے ملاقات سے پہلے کرزئی اس سے بری چیز نہیں پڑھ سکتا تھا۔ میرے خیال سے نقصان ہو چکا ہے لیکن میں چاہتا ہوں کی تمہیں کم از کم اس کا علم ہو۔‘‘
یہ میل آخر کار ہلیری کلنٹن تک پہنچتی ہے اور یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اب اس حوالے سے ایک میٹنگ میں بات کی جائے گی کہ آگے کیا کرنا ہے۔

ان میلز سے اندازہ ہوتا ہے کہ کامیاب سفارت کاری کے لیے امریکی کس قدر غیرملکی لیڈران کی طبیعت، پسند ناپسند اور سوچنے کے طریقہ ءکار پر نظر رکھتے ہیں۔ یقین کیجیے زرداری صاحب سے لے کر نواز شریف تک اور جنرل کیانی سے لے کر جنرل راحیل شریف تک۔ امریکی ہر شخص کے مزاج اور عادات کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں اور یہ پلاننگ کرتے ہیں کہ اس پر کس طرح اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے