پاکستان میں فرقہ واریت کے اسباب

فرقہ واریت ایک ایسا ناسور ہے جس نے پاکستان سمیت دیگر مسلم کیا غیر مسلم ممالک کو بھی کھوکھلا کر دیا ہے۔ فرقہ داریت نے نفرت اور تعصب کی ایسی آگ جلائی کہ نہ مساجد و مدارس محفوظ ہیں اور نہ دفاتر و مکاتب، امام بارگاہ سے لیکر سکول تک، فوج و ریاست سے لیکر مذہبی وسیاسی قائدین تک، اور خواص سے لیکر عوام تک سب فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ مگر تاحال اس مرض کی تشخیص کرنے میں ہم بحیثیت ریاست، سماج اور مذہبی ناکام رہے ہیں زیر نظر مضمون میں اس سرطان العصر کی تشخیص کی گئی ہے۔جو راقم کے گزشتہ کئی سالوں کے نتائج کا مجموعہ ہے

فرقہ واریت کیا ہے؟
فرقہ واریت گروہی سوچ پر مبنی ایسے منفی رویے کا نام ہے جس میں ایک مسلک یا مذہب والا اپنے مقابل کا احترام نہ کریں اور مقابل مسلک و مذہب کے پیروکاروں کیساتھ نفرت اور تعصب کا برتائو کرتے ہوئے اپنے موقف کو ٹھونسنے کی کوشش کرے ایسے مزاج اور رویے کو فرقہ پرستی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں فرقہ واریت کے اسباب

پاکستان میں پائے جانیوالے فرقہ واریت کی بہت سے اسباب ہیں جن میں کچھ اسباب داخلی ہیں اور کچھ خارجی

خارجی اسباب

اسباب خارجی میں ایران سعودی عرب تنازعہ، مشرق و سطیٰ کے حالات، عراق اور افغانستان میں امریکی جارحیت، عرب اسرائیل جنگ، ایران عراق (صدام) تصادم، شام اور یمن کے حالات بلکہ سب سے بڑھ کرروس اور امریکہ کی باہمی چپقلش وغیرہ…مگر بات اتنی سادہ بھی نہیں کہ ہم فرقہ واریت کو بیرونی سازش قرار دے کر حقائق سے چشم پوشی کریں۔

ہمارے ہاں کچھ داخلی مسائل ضرور ہیں جسکی وجہ سے ایران اور سعودی تنازعے کے اثرات وہاں کم لیکن ہمارے ہاں زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمیں اندرونی اسباب پر غور کرنا ہو گا۔

داخلی اسباب

داخلی اسباب کی ایک لمبی فہرست ہے مگر جس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:-

١) ریاستی اسباب:

٭ ریاست نے ہمیشہ فرقہ وارانہ تنظیموں کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہوئے تحفظ فراہم کیا۔

٭ فرقہ وار یت پھیلانے والی تنظیموں کے حوالے سے کوئی موثر قانون سازی نہیں ہوئی۔ جو چاہے جب چاہے تنظیم یا ادارہ بنا سکتا ہے۔

٭ فرقہ واریت اور شدت پسندی پھیلانے کے ترغیبی ذرائع خصوصاً رسائل و سوشل میڈیا کو روکنے کیلئے کوئی موثر پالیسی اور ادارہ نہیں۔

٭ سعودی عرب اورایران ایمبیسیوں یا اس کے متعلقہ اداروں میں بعض سیاسی اور مذہبی رہنمائوں کی ملاقاتوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔

٭ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو فرقہ وارانہ تنازعات سے نمٹنے کیلئے کوئی خاص تربیت کا اہتمام نہیں کیا گیا ہے

٭ فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے میں قانون کی حکمرانی موثر(Tool)ہے جس کو استعمال نہیں کیا جا رہا ۔

٭ آئین پاکستان میں دفعہ 227میں فرقہ کو مثبت معنیٰ میں استعمال کرکے فرقہ واریت کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا ہے ۔

٢) فرقہ واریت کے مذہبی اسباب:

فرقہ واریت کے مذہبی اسباب بہت ہیں مگر ان میں سب سے اہم سبب فرقہ واریت پر مبنی بیانیے (Narratives)ہے۔ ان میں سے چند بیانئے حسب ذیل ہیں

• شیعہ کافر ہیں کیونکہ وہ خلفاء راشدینؓ اور صحابہ کرام ؓ کی توہین کرتے ہیں اور قرآن مجید میں کمی بیشی اور تغیر و تبدل کے قائل ہیں۔

• بریلوی مشرک ، بدعتی اور مقابر پرست ہیں۔

• دیو بندی گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کیونکہ ان اکابر نے توہین آمیز عبارات لکھی ہیں۔

• اہل حدیث خارجی ہیں، گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم و اہل بیت ہیں، ائمہ فقہاء کے گستاخ ہیں۔

• ہمارا عقیدہ اور مسلک برحق اور سواد اعظم ہے۔

• ہمارے علاوہ باقی سب فرق فرقہ باطلہ ہیں۔

• فرقہ باطلہ کا تعاقب ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔

• سیکولر لادین ہوتے ہیں خدا، رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کو نہیں مانتے۔

مذکورہ تمام بیانیے تمام علماء یا مذہبی قائدین کی طرف منسوب نہیں بلکہ ہر مسلک میں کچھ فرقہ وارانہ عناصر دوسرے مسلک کے حوالے سے ایسے رجحانات رکھتے ہیں۔

دیگر مذہبی وجوہات

٭ پاکستان میں اب تک ملا نظام الدین سہالوی ؒ(بانی درس نظامی) کے طرز پر کوئی بین المسالک مدرسہ نہیں۔ جس میں شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث ایک ساتھ پڑھتے ہوں۔

٭ ہر مسلک میں فرقہ وارانہ تنظیموں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جس کو اس مسلک کے نچلی سطح کے جذباتی کارکنوں کی سپورٹ حاصل ہے۔

٭ ماضی کی طرح ملی یکجہتی کونسل سمیت جیسا کوئی موثر فورم نہیں جس پر جمع ہو کر ایک دوسرے کے شکایات سن کر ازالہ کر سکیں۔

٭ مذہبی اداروں میں تربیت اساتذہ اور تربیت ائمہ مساجد کیلئے کوئی مربوط نظام نہیں۔

٭ مرکزی قیادت کے علاوہ درمیانی اور نچلی سطح پر تمام مسالک کے درمیان رابطے کا انتہائی فقدان ہے۔

٭ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ جو کہ تمام مسالک (شیعہ،سنی ، دیو بندی، بریلوی اور اہل حدیث) کی مشترکہ تنظیم ہے،فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے کوئی موثر کردار ادا نہیں کر رہا۔

٭ کسی بھی مسلک والے اپنے بزرگوں کے فتاویٰ جات دربارہ تکفیر مقابل مسلک سے رجوع کرنے کے ، پیچھے ہٹنے یا تاویل کیلئے تیار نہیں ۔

٭ ایک مسلک کا دوسرے مسلک کے اساتذہ اور طلباء کے درمیان تبادلے اور رابطہ کاری کا کوئی تصور نہیں۔

٭ ہر مسلک اور ان کے اداروں میں میں شدت پسند اور مناظر باز مولویوں کو معتدل مزاج مولویوں پر برتری اور فوقیت حاصل ہے۔

٭ % 95سے زائد مذہبی رسائل مسلکی شناخت کیساتھ شائع ہوتے ہیں جس میں ٓادھے سے زیادہ فرقہ واریت کوپھیلاتے ہیں۔

٭ ہر مسلک میں اتحاد امت یا دیگر مسالک کو قریب لانی والی تحقیقی کاوشوں اور تصنیفات کو طاق نسیاں میں رکھا گیا ہے بلکہ ایسی کوششوں کی کوئی حیثیت (Value)نہیں۔

٭ جبکہ فرقہ واریت یا دیگر مسالک کے خلاف لکھی گئی کتابوں کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوتے ہیں۔
٭ تمام مسالک میں دارالافتاء (فتوی دینے والا ادارہ ) کھولنے وغیرہ کیلئے کوئی اُصول یا ضابطہ نہیں جس کی وجہ سے غیر معیاری مفتیان کرام اور فتاویٰ جات کی بھرمار ہے۔
٭ تمام مسالک کا کوئی مشترکہ پلیٹ فارم نہیں جو کہ خطبات جمعہ وغیرہ کا مثبت مجموعہ تیار کرے۔ جو تمام کیلئے قابل قبول ہو۔
٭ مدارس اور مذہبی اداروں میں آئین پاکستان اور تعزیرات پاکستان وغیرہ بھی نہیں پڑھایا جاتا جس کی وجہ سے بہت مغالطے پیدا ہوتے ہیں۔
٭ اب تک ایک مسلک کی دوسرے کے خلاف چلائی گئی کمپین کا کوئی جوابی بیانیہ (Counter Narrative)تیار نہیں کیا گیا۔ جو کہ گزشتہ منفی اثرات کا ازالہ کر سکے۔
٭ بین المذاہب ہم آہنگی یا بین المسالک ہم آہنگی کی کاوشوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے بلکہ بیرونی سازش قرار دیا جاتا ہے۔

سماجی اور معاشرتی اسباب

پاکستانی سوسائٹی میں فرقہ واریت کی جڑیں مضبوط ہونے اور پروان چڑھنے میں سب سے بنیادی وجہ اسکی سماجی اور معاشرتی قبولیت ہے سماج دو حصوں میں بٹ گئی ہیں مذہبی اور سیکولر، پھر دونوں میں تین طبقات پائے جاتے ہیں۔ایلیٹ کلاس میں سیکولرازم جبکہ باقی دو طبقوں میں مذہبی فرقہ واریت۔پھر مذہبی آگے مختلف مکاتب فکر اور فرقوں میں بٹ چکے ہیں، چند سماجی اسباب حسب ذیل ہیں:-

٭ سماج عمومی طور پر مذہب کے آفاقی تعلیمات سے بہت دور ہے۔
٭ تعلیمی اداروں اور نصاب تعلیم میں مذہب پر کما حقہ توجہ نہیں دیجاتی۔
٭ عوام مصلح اور فسادی عالم دین میں فرق نہیں کر سکتے۔
٭ معاشرے کے بااثر طبقات کی اس حوالے سے کوئی تربیت نہیں ہوئی۔
٭ سماج میں اب تک فرقہ پرست عناصر کو ہیروز کا درجہ حاصل ہے۔
٭ عوام اختلاف رائے، فقہی مذہب اور فرقہ میں فرق نہیں کر سکتے۔
٭ سماج میں مذہب اور فرقے کو سیاست کیلئے بے رحمی سے استعمال کیا جارہا ہے۔
٭ بین المسالک ہم آہنگی یا بین المذاہب ہم آہنگی اسلام کے خلاف ایک سازش ہے۔
٭ عوامی سطح پر کوئی مضبوط اور موثر پریشر گروپ نہیں جو کہ فرقہ واریت کو روک سکے۔
٭ فرقہ وارانہ تنظیموں کی فنڈنگ بھی سوسائٹی سے ہوتی ہے۔
٭ سول سوسائٹی اور تنظیمیں اپنی پروجیکٹ کی فکر حقیقی مسائل کو غور سے نہیں دیکھتی۔
٭ بہت سی سماجی رفاہی تنظیمیں بھی فرقوں کی بنیاد پر ریلیف دیتے ہیں۔
٭ سول سوسائٹی اور فارن ڈونرز کو فیلڈ میں اصل مسائل کا کچھ خاص علم نہیں ہو گا۔

مذکورہ تمام اسباب کی مضبوط بنیادیں ہیں۔ جس کی وجہ سے وطن عزیز میں فرقہ پرستی اور تفرقہ پروری کا زہر اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ گزشتہ اکثریتی فسادات بلکہ عسکریت پسندی، طالبانائزیشن ، القاعدہ اور داعش کی مقبولیت کی وجوہات میں ان کے فرقہ وارانہ افکار کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔ مگر ہمارے ہاں دہشت گردی کا رجسٹر اتنا ضخیم ہے کہ ہم پر کاروائی کو اس میں درج کرتے ہیں۔ وگر نہ وطن عزیز میں فرقہ واریت کے نام پر جو خونریزی جسکی کوئی حد نہیں۔ پورے پاکستان کے رسائل و جرائد، اخبارات اور نیوز ویب سائٹ کا جائزہ لیں آج تک سنی کمیونٹی پر حملے اور زیادتی کے خلاف شیعہ کمیونٹی نے جلوس نہیں نکالا اور نہ مؤثر انداز میں اس کی مذمت کی۔ اسی طرح شیعہ امام بارگاہوں میں دھماکے ہوئے مگر کسی سنی جماعت نے جلوس نہیں نکالا۔ گویا کہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے ہوئے لاشوں پر بھی ہمارا رگِ پاکستانیت، اسلامیت یا انسانیت نہیں پھڑکتا اور ہم لاش پر افسوس کی بجائے ان کا مسلک معلوم کر رہے ہوتے ہیں اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ مذکورہ تمام اسباب وجوہات حتمی نہیں بلکہ اس کے علاوہ اور بھی ہوسکتے ہیں۔ نیز مذکورہ وجوہات بعض مسالک میں کم بعض میں زیادہ، بعض علاقوں میں کم بعض میں زیادہ پاتے جاتے ہیں۔مگر مجموعی طور پر ہمارے سماج، مزاج اور رویوں پر اس کا گہرا اثر ہے۔ اس مرض کا علاج، اسباب اور مسائل کا حل اور جوابی بیانیہ(Counter Narrative)کیا ہو گا؟ اگلے کالم کا انتظار کیجیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے