7 ماہ بعد مشرف غداری کیس کی سماعت کا دوبارہ آغاز

اسلام آباد: سات ماہ کے وقفے کے بعد خصوصی عدالت سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی دوبارہ سماعت کا آغاز کرے گی، جس میں سابق خاتونِ اول صہبا مشرف کی اپنی جائیدادوں کے ضبطگی کے خلاف دائر درخواست کو بھی سنا جائے گا۔

خصوصی عدالت نے گذشتہ سال جولائی میں پرویز مشرف کو مفرور قرار دیتے ہوئے ان کی قابلِ منتقل اور ناقابلِ منتقل جائیداد کو ضبط کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

وزارت داخلہ کی جانب سے خصوصی عدالت کو جمع کرائی گئی جائیداد کی تفصیلات کے مطابق سابق ملٹری ڈکٹیٹر 7 ناقابل منتقل جائیدادوں اور 9 بینک اکاؤنٹس کے مالک ہیں۔

ان کی ناقابل منتقل جائیدادوں میں آرمی ہاؤسنگ اسکیم کراچی، خیابانِ فیصل ڈی ایچ اے کراچی، بیچ اسٹریٹ ڈی ایچ اے کراچی، ڈی ایچ اے اسلام آباد اور ڈی ایچ اے لاہور میں موجود پلاٹس شامل ہیں۔

علاوہ ازیں وہ چک شہزاد کے ایک فارم ہاؤس اور بہاولپور میں زرعی اراضی کے بھی مالک ہیں۔

سابق صدر کے بینک الفلاح، عسکری بینک، حبیب میٹروپولیٹن بینک، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک اور نیشنل بینک آف پاکستان میں اکاؤنٹس بھی موجود ہیں۔

دوسری جانب جنرل پرویز مشرف کی اہلیہ صہبا مشرف نے اپنے وکیل فیصل حسین کے ذریعے چک شہزاد میں موجود فارم ہاؤس اور ڈی ایچ اے اسلام آباد و کراچی میں موجود پلاٹوں کی ضبطگی کے خلاف ایک درخواست دائر کی۔

اپنی درخواست میں صہبا مشرف نے دعویٰ کیا کہ ان کے شوہر نے 12 مارچ 2008 میں چک شہزاد فارم ہاؤس انہیں تحفے میں دے دیا تھا۔

2011 میں راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے سابق صدر کی جائیدادوں کی فروخت کا حکم دیا تھا، جبکہ اے ٹی سی کے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی تھی۔

صہبا مشرف کی درخواست کے مطابق بعد ازاں اس کیس کو اسلام آباد کے سول جج کی عدالت میں بھیج دیا گیا جہاں 10 اکتوبر 2013 کو ان جائیدادوں کو صدر مشرف کی ملکیت قرار دیتے ہوئے کیس کو خارج کردیا گیا۔

درخواست کے مطابق ڈی ایچ اے فیز 8 خیابان فیصل کراچی کے فلیٹ کے مشترکہ مالکان میں پرویز مشرف اور صہبا مشرف کی مرحوم بہن ہما خائشگی شامل ہیں اور سابق صدر اس فلیٹ میں سے اپنا حصہ مارچ 2009 میں اپنی اہلیہ اور بیٹی عائلہ رضا کو تحفے میں دے چکے ہیں۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ ڈی ایچ اے فیز 2 اسلام آباد اور بیچ اسٹریٹ فیز 8 ڈی ایچ اے کراچی میں موجود پلاٹس صہبا مشرف اور عائلہ رضا کو تحفے میں دیئے جاچکے ہیں، جبکہ آرمی ہاؤسنگ اسکیم پارٹ 2 کلفٹن کراچی کا پلاٹ عائلہ رضا کے نام پر منتقل بھی ہوچکا ہے۔

صہبا مشرف کی درخواست کے مطابق پرویز مشرف کی قابل منتقل جائیداد میں وہ بینک اکاؤنٹ بھی شامل ہے جس کے ذریعے انھیں سابق صدر و آرمی چیف کے عہدوں سے ریٹائرمنٹ کے بعد پینشن موصول ہوتی ہے، جبکہ پینشن ایکٹ 1871 کی دفعہ 11 کے مطابق عدالت کے کسی حکم کے ذریعے وہ ضبط نہیں کیا جاسکتا۔

اس درخواست میں سابق صدر کے پینشن اکاؤنٹ کو جنرل پرویز مشرف اور ان کی اہلیہ صہبا مشرف کے گزارے اور آمدن کا واحد ذریعہ بھی قرار دیا گیا۔

پٹیشن میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ جنرل پرویز مشرف کی عمر 60 سال سے تجاوز کرچکی ہے اور اب ان کی کوئی بھی جائیداد فروخت اور منتقل نہیں کی جاسکتی کیونکہ ان کی بیٹی عائلہ رضا اور بیٹا بلال مشرف ان جائیدادوں کے قانونی وارث ہیں۔

وراثت کا حق قرآن سے ثابت ہے اور اسے کسی مجموعہ ضابطہ فوجداری کے ذریعے رَد نہیں کیا جاسکتا۔

برطانیہ میں رجسٹرڈ پرویز مشرف ٹرسٹ کے حوالے سے درخواست میں کہا گیا کہ یہ ٹرسٹ قانون کے مطابق ایک ادارہ ہے جو سابق صدر سے علیحدہ ہے لہذا اسے ضبط نہیں کیا جاسکتا۔

درخواست میں عدالت کو پرویز مشرف کی وطن واپسی سے متعلق یقین دہانی کراتے ہوئے کہا گیا کہ وہ علاج مکمل ہونے کے بعد پاکستان لوٹ آئیں گے لہذا انہیں مفرور نہ سمجھا جائے اور اس حوالے سے ان کے خلاف تمام کارروائیوں کو واپس لیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے