45 فیصد بچوں کیلئے صرف 200 ماہر سرجن

اسلام آباد: پاکستان میں قلیل تنخواہوں کی وجہ سے بچوں کی بیماریوں کے ماہر سرجن تیزی سے بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں، جس کے باعث 15 سال سے کم عمر 45 فیصد بچوں کے لیے صرف 200 ماہر ڈاکٹرز باقی رہ گئے۔

وفاقی دارالحکومت میں محکمہ ماہر امراض اطفال پمز کے ڈاکٹرز کی جانب سے منعقد کردہ 25ویں بین الاقوامی کانگریس آف ایسوسی ایشن آف پیڈیاٹرکس سرجنز پاکستان سے خطاب کرتے شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی پمز کے پروفیسر ڈاکٹر محمد امجد کا کہنا تھا کہ کانگریس نے اس بات کا فیصلہ کیا تھا کہ قومی پیدائشی امراض کی رجسٹری تیار کی جائے گی تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے ملک میں کتنے افراد پیدائش طور پر امراض کا شکار ہیں جبکہ سالانہ کتنے بچے پیدائشی امراض کے ساتھ جنم لیتے ہیں۔

ڈاکٹر امجد کے مطابق ماہر ڈاکٹرز کو بیرون ممالک جانے سے روکنے کے لیے کوشش کی جانی چاہیئے کیونکہ ملک میں معذوری اور امراض کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کا علاج کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی بچے ‘Meningocele’ نامی مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جس کے باعث ان کے کمر کے مہروں میں فاصلہ موجود ہوتا، ماہر امراض اطفال آپریشن کرکے اس کا بہتر علاج کرسکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح کئی بچے ‘کلب فوٹ’ کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جس میں بچے کا پیر مُڑا ہوا یا ٹیڑھا ہوتا ہے، اس خامی کو بھی درست کیا جاسکتا ہے لیکن سرجن نہ ہونے کے باعث بےشمار بچے علاج سے محروم رہ جاتے ہیں۔

انہوں نے پالیسی سازوں پر زور دیا کہ ملک میں ماہر سرجنز کو روکنے کے لیے پلان تشکیل دینے میں مدد فراہم کریں۔

وزیر کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کا شرکاء سے خطاب میں کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کے حل کے لیے اپنا کردار ضرور ادا کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ قومی پیدائشی امراض کی رجسٹری تیار کی جائے، اس سے حکومت کو مستقبل کے منصوبے تیار کرنے میں مدد حاصل ہوسکے گی۔

طارق فضل چوہدری کے مطابق وہ اس حوالے سے وزیراعظم نواز شریف سے بھی بات کریں گہ کہ بچوں کے امراض کے ماہر سرجنز کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں خصوصی پیکج شروع کریں تاکہ ان کی کمی کو بھی پورا کیا جاسکے اور ساتھ ملک چھوڑ کر جانے والے ماہر ڈاکٹرز کی شرح کو بھی کم کیا جاسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے