دہشگردوں کے نام ایک خط

آپس کی بات یہ ہے کہ میں پشاور زلمے کا ساتھ اس لیے دے رہا تھا کہ شاید ہار جائے گی لیکن اب میں کوئٹہ گلیڈی ایٹر کے ساتھ مل کر پشاور زلمے کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ کاش گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر اور فاٹا کی ٹیمیں بھی اگلے سال پی ایس ایل میں شامل ہوں .

قذافی اسٹیڈیم لاہور میں بلوچ اور پختون کھیلے جس میں پاکستان جیت گیا، میں ملتان میں تھا اور میں نے یہاں عجیب ہی منظر دیکھا .ملتان سے لیکر بہاولپور تک گلیوں اور بازاروں میں بڑی اسکرینز کے سامنے لوگ بیٹھے میچ دیکھ رہے تھے ۔ 2006 کے بعد کم ہی اس قوم کو خوشی کے موقع میسر آئے ہیں ۔ ہمیں اس موقع پر دونوں ٹیموں میں کھیلنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے پاکستان پر اعتماد کیا ۔

اہل پاکستان کا شکریہ تو بنتا ہے جنہوں نے ایک چھوٹے سے موقع کو بڑے موقع میں بدل دیا ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے پی ایس ایل کا نہیں بلکہ ورلڈ کپ کا فائنل ہو رہا تھا ۔ کاش اس موقع پر کھیل کو سیاست کی آلودگی سے پاک رکھا جاتا تاہم انجانے میں کی گئی اس کوشش کو عوام کے زبردست جوش و خروش نے ناکام بنا دیا ۔ تحریک انصاف کے فیس بک پیج کر کاش یہ سیاسی نعرے شئیر کر کے اس عمل کو شہہ نہ دی جاتی ۔ بہر حال آپ کے جوش اور جذبے کا شکریہ، خوف کی فضا توڑ کر باہر نکلنے پر پورے پاکستان کا شکریہ ۔ دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ کرے اگلا پی ایس ایل پاکستان میں شروع ہو کر پاکستان میں ہی ختم ہو۔

دہشت پھیلانے والوں سے میں صرف اتنا کہوں گا کہ ہم جانتے ہیں کہ تم میں بڑی صلاحیت ہے ،تم نے بے پناہ جذبات ہیں ، تم چاہو تو پریڈ لائن راولپنڈی کی مسجد میں جمعے کی نماز پڑھتے نمازیوں پر بم دھماکے اور کلاشنکوفوں سے آگ نکال کر ان کے سینے چاک کر سکتے ہو ، تم چاہو تو اسکول میں کتابیں پر جھکے، پڑھنے میں مصروف معصوم بچوں کو یونیفارم میں لہو لہان کر سکتے ہو ، تم چاہو تو باچا خان یونیورسٹی میں حصول علم میں مصروف نہتے طالب علموں کے سینے چھلنی کر سکتے ہو ، تم چاہو تو اقبال پارک لاہور میں اپنی ماؤں کے ساتھ ہنستے کھیلتے بچوں کو کفن پہنوا دیتے ہو ۔ تم چاہو تو مینا بازار پشاور میں اپنے بچوں کیلئے عید کی خریداری میں مصروف پردہ دار خواتین کو دھماکے میں اس طرح اڑا دیتے ہو کہ ان کے جسم کے اعضاٗ برہنہ ہو کر کئی کئی فٹ دور جا گرتے ہیں ۔

تم چاہو تو واہگہ بارڈر پر پاکستان کا جھنڈا اٹھائے ،اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے پاکستانیوں کے زندہ جسموں کو لاشوں اور چیتھڑوں میں بدل سکتے ہو ، تم چاہو تو لعل شہباز قلندر کے مزار پر عشق و مستی میں گم ملنگوں کے درمیان یوں پھٹ سکتے ہو کہ کسی ہاتھ ملتا ہے اور ٹانگ نہیں ملتی ، سر ملتا ہے تو دھڑ نہیں ملتا ۔ تم چاہو تو بے بسوں کو بسوں سے اتار کر ان کے سینے میں گولیاں پیوست کردیتے ہو اور انہیں ماہی بے آب کی طرح تڑپتا دیکھ کر خوش ہوتے ہو ۔ تم چاہو تو بغیر ویزے کے ، بغیر شناختی کارڈ کے ، بغیر پاسپورٹ کے جہاں چاہو جا سکتے ہو ۔ تم چاہو تو جعلی شناختی کارڈ بنا کر ،جعلی پاسپورٹ پر اصلی ویزا لگوا کر جہاں چاہو رہ سکتے ہو ۔ تم چاہو تو پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے لوگوں کو گھروں میں خود ساختہ قید گزارنے پر مجبور کردو ۔ تم کیا نہیں چاہتے جو نہیں ہوتا اور تم وہ کیا چاہتے ہو جو کرنہیں سکتے ۔

تم خون بہا کر لوگوں کو مار دیتے ہو ، میں خون دیکر لوگوں کو بچا لیتا ہوں ، تم اسکول تباہ کر کے تعلیم ختم کر دیتے ہو ،میں درخت کے نیچے تختہ سیاہ لگا کر تمھاری پھیلائی ہوئی سیاہی کو روشنی میں بدل دیتا ہوں ۔ تم جہاں جہاں میری دنیا اجاڑ دیتے ہو ، میں وہاں وہاں ایک نئی دنیا بسا لیتا ہوں ۔ تمھاری کوششوں کی وجہ سے آج مساجد ، مدارس ، مذہب کے طلب علم ، داڑھی ، ٹوپی اور عمامہ امن کے بجائے خوف کی علامت بن چکے ہیں. جہاں لوگ مروجہ مذہبی حلیے کے لوگوں کو دیکھتے ہیں ،اس جگہ سے دور چلے جاتے ہیں . تمھاری وجہ سے مزہبی لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر دی گئیں . مساجد پر تالے پڑ گئے . مجھے نہیں پتا کہ تمھاری جنگ کس سے ہے لیکن مجھے پتا ہے کہ میری جنگ کس سے ہے ۔ مجھے نہیں پتا کہ تمھیں تمھاری جنگ میں کیا ملا لیکن مجھے اپنی جنگ میں کامیابیوں اور منزلوں کی جانب سفر کا سامان مل گیا ۔ مجھے منزلوں کو نشان مل گیا ۔

تم بہت بہادر ہو ، تم نڈر اور بے باک ہو لیکن آؤ اب کھیل بدلتے ہیں ۔ تم بم بارود کا کھیل کھیلنے کے بجائے ہمت ہے تو فٹ بال، کرکٹ، ہاکی کھیل کر دکھاؤ ۔ تم ڈاکٹرز ، انجنئیرز اور پروفیسرز کو قتل کرنے کے بجائے ڈاکٹر ،انجنئیر اور پروفیسر بن کر دکھاؤ ۔ تم بھتہ لینے اور ڈاکا ٖڈالنے کے بجائے اپنے ہاتھوں سے کما کر دکھاؤ ۔ تم بہادر ہو ، بہت بہادر ہو تو اپنی بات کو گولی کے بجائے دلیل کے زور سے منوا کر دکھاؤ ۔ تم مضبوط دلائل رکھتے ہو تو اپنا مقدمے پر اپنے مسلک اور مذہب کے جید مفتیان سے فتویٰ یا دستخط لیکر دکھاؤ ۔

تم نے سارے میدان اجاڑ دیے، ہمت ہےتو انہیں بسا کر دکھاؤ، تم اپنی ٹوٹی کمر کے ساتھ کوئی ایسا کھیل، کھیل کر دکھاؤ کہ یہ زخم رسیدہ قوم مسکرا اٹھے ۔ آج تک تم نے اپنے کھیل میں لوگوں کو رلایا، لہولہان کیا، زخمی کیا، کب تک لاشے اٹھاؤ گے، کوئی ٹرافی اٹھا کر دکھاؤ ۔ اس دہشت کے کھیل کو بند کر دو، بچوں کو مذہب، سیاست ، قومیت اور زبان کے نام پر گمراہ کرنا چھوڑ دو، کیا تم نے ایک بار بھی کبھی سوچا ہے کہ جس ماں کی گود تم نے اجاڑ دی ہے وہ اپنی مانگ میں خاک ڈالے گلیوں میں پاگلوں کی طرح لوگوں کے بچوں کے چہروں پر بوسے دیتی آج تک اپنا پچہ ڈھونڈ رہی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے