ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے!

ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں یہاں اخلاقی اقدار کا کوئی پرسان حال نہیں ۔کبھی معاشرتی پیمائش کا پیمانہ اخلاقی قدریں ہوا کرتی ہیں ،جن معاشروں نے اقوام عالم میں اپنا سکہ منوایا انھوں نے جنگ و جدل میں بھی اخلاقی قدروں کو پامال نہیں ہونے دیا کتنی بڑی کوئی افتاد ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑے اخلاقی قدروں کو ہر حال میں مقدم رکھا سر بلند معاشروں کی یہ خوبی ہے کہ وہ قانون کا احترام کرتے ہیں ۔

ہمارے معاشرے میں کوئی ذرا مختلف سوچ لے تو اسے پاگل کہہ کر اس کا جینا محال کر دیا جاتا ہے ۔کوئی کسی جسمانی نقص کے ساتھ پیدا ہو تو اسے اجتماعی دھارے سے الگ کر دیا جاتا ہے ۔چنانچہ ایسے لوگوں کو اجتماعی دھارے میں آنے کے لیے غیر معمولی ذہانت اور ہمت حوصلے کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے تب جا کر یہ معاشرہ انہیں قبول کرتا ہے ، معذوروں کے پروگراموں میں غیر معمولی افراد کو بلایا جاتا ہے جو بتاتے ہیں کہ معاشرے کی طرف سے کھڑی کی گئی پہاڑ جیسی مشکلات کے باوجود اپنی غیر معمولی ذہانت اور حوصلے سے کامیاب ہوئے ہیں ۔ہم اس پر فخر کرتے ہیں لیکن غور نہیں کرتے کہ قدرت کی طرف سے وہ پہلے ہی ایک آزمائش میں مبتلا کیئے گئے ۔ہم ان کا راستہ آسان کرنے کی بجائے مشکل بنا دیتے ہیں ۔ذرا غور کریں جو معذور غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل نہیں ہو گا معاشرہ اسے جگہ نہیں دے گا ۔

جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا جزوِ لاینفک بن چکا ہے ۔حکمرانو ں سے لے کر نیچے تک ہر کوئی جھوٹ دھڑلے سے بول رہا ہے ، جھوٹ ایک ایسی دیمک ہے یہ جس معاشرے کو لگ جائے وہ معاشرہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہتا۔پچھلی قوموں کی تباہی کا سبب بھی جھوٹ تھا پیغمبران نے خدا نے انہیں جھوٹ بولنے سے بار بار منع کیا پھر بھی وہ باز نہ آئے ہلاکت ان قوموں کا مقدر بنی ،کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ جھوٹ پر پہرہ دینے کے لیئے مسلسل جھوٹ بولتے ہیں آخرکار جھوٹ انہیں گناہوں کی دلدل میں لے جاتا ہے جہاں سے واپسی کا راستہ ممکن نہیں ہوتا، ہمارے تاریخ دانوں کچھ ایسے ہی جھوٹ بولے اور لکھے جن کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔جھوٹ کے ذریعے حقائق کو مسخ کرنا اور دوسروں کو دھوکا دینا معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے ۔ایسی صورتحال کے شکار معاشرے حقیقی خوشی سے محروم رہتے ہیں ،سچ بولنے سے جہاں دل کو سکون ملتا ہے وہاں جھوٹ بولنے والا تفکرات میں گھرا رہتا ہے ۔حضرت علیؓ کا قول ہے کہ اپنے خیالوں کی حفاظت کرو کیونکہ یہ تمہارے الفاظ بن جاتے ہیں اپنے الفاظ کی حفاظت کریں کیونکہ یہ تمہارے اعمال بن جاتے ہیں اپنے اعمال کی حفاظت کرو کیونکہ یہ تمہارا کردار بن جاتا ہے اپنے کردار کی حفاظت کرو کیونکہ تمہارا کردار ہی تمہاری پہچان ہے ۔

تعصب بھی بیمار معاشرے کی ایک علامت ہے تعصب کا کسی مخصوص علاقے سے تعلق نہیں ہوتا،یہ منفی رویہ کسی بھی قوم میں مختلف افکار اور نظریات کو روپ میں آ سکتا ہے ،نیز مذہبی لوگ بھی تعصب سے اس قدر متاثر ہوسکتے ہیں کہ ہر چیز کو اپنے محصوص نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے سطحی علم کو مطلقاََ صداقت سمجھتے ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ سامی حقیقت کے معاملات میں بے لچک اور عدم برداشت پر مبنی رویہ اپناتے ہیں ،اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ خودکش حملہ آور کسی نشہ آور چیز یا دھوکے کے زیر اثر ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں مکمل طور پر ہیپناٹائزڈ کیا گیا ہوتا ہے تو دور حاضر میں بزعم خود مذہب کے نام پر کیے جانے والے خودکش حملے بھی اسی تعصب کا نتیجہ ہیں ، یہ ایسی خطرنات بیماری ہے کہ لوگ خودساختہ پارسائی کے دھوکے میں اپنی روحانی زندگیوں کو بھی بیمار کر دیتے ہیں ، جو لوگ خودکش حملہ کرکے بچوں،عورتوں ،کمزوروں اور بوڑھوں سمیت معصوم لوگوں کی جان لیتے ہیں وہ اس قسم کے طرز عمل سے اپنے آپ کو جنت کی بجائے جہنم کا مستحق بناتے ہیں، یہ کتنا افسوس ناک انجام ہے کہ کوئی شخص جنت کا راستہ اختیار کرے اور دوسرے کو اس کی طر ف رہنمائی کرنے کی بجائے جہنم میں جا گرے ۔

بیمار معاشرے کی ایک اور علامت رشوت ہے ۔ رشوت کے معاملے میں ہمارا معاشرہ ”خود کفیل” ہے۔جائز کام بھی بغیر رشوت کے نہیں ہوتا ۔موجودہ دور میں اس لین دین کو ”ہدیے یا نذرانے” کا خوبصورت نام دیا جا تا ہے ۔درحقیقت یہ رشوت ہے ، رشوت کا لین دین کرنے والوں پر اللہ کے رسولﷺ نے بڑی سخت وعیدیں سنائی ہیں ۔چنانچہ فرمان رسولﷺ ہے کہ رشوت لینے اور دینے والوں پر اللہ کی لعنت برستی ہے(ابن ماجہ)۔ایک دوسری حدیث میں نبی اکرمﷺ نے فرمایا رشوت لینے اور دینے والا دونوں دوزخی ہیں (طبرانی)۔جس طرح رشوت لینے اور دینے والے دونوں ملعون اور دوزخی ہیں اس طرح معاملہ کی دلالی کرنے والا حدیث رسولﷺ کی روشنی میں ملعون ہے ۔صحابی رسول حضرت صوبانؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے رشوت لینے دینے اور رشوت کی دلالی کرنے والے پر لعنت کی ہے (مسند احمد اور طبرانی) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ قاضی کا کسی سے رشوت لے کر اس کے حق میں فیصلہ کرنا کفر کے برابر ہے( طبرانی) ۔

ترکی سے چین اور چین سے لے کر قطرتک جتنے بھی سودے ہوتے ہیں اور ان میں کِکس بیک وصول کی جاتی ہیں مندرجہ بالا احادیث کی روشنی میں انہیں کیا کہیں گئے؟

اتنا سب کچھ ہوتا ہے ، پھرہم سب جب ملتے ہیں ایک ہی سوال کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ ہم تباہی کی جانب کیوں جارہے ہیں؟ کیوں ہم پر وعظ و نصیحت اثر نہیں کرتی ؟ تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب ہم کر رہے ہیں ہم خود اس معاشرے کا حصہ ہیں ۔کیا ہم نے کبھی خود کو سدھارنے کی کوشش کی ہے؟ہم چاہتے ہیں کہ بس دوسرا ٹھیک ہوجائے ہماری خیر ہے ،ہم دوسروں کو نصیحت تو کرتے ہیں کہ شراب پینا ،زنا ،چوری ،دھوکا دہی ،فساد اور نفرتیں پھیلانا سب بری چیزیں ہیں لیکن ہم خود کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتے،جب تک ہم خود ٹھیک نہیں ہوں گے معاشرے میں بگاڑ بڑھتا جائے گا ، ہماری اخلاقی قدریں مزید پستی کی طرف جائیں گی، تھوڑی سی کوشش کر کے دیکھ لیں آپ خود ٹھیک ہوئے تو سب کوکچھ ٹھیک ہوتا دکھائی دے گا ۔

؎
اپنی خرابیوں کو پس پشت ڈال کر
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے