افسوس ! خان صاحب افسوس

پاکستان میں عوام کو کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاو ہے ۔ اس جنون کا خاتمہ کرنے کے لیے سن 2009 میں طالبان اور لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں نے پاکستان کے دورے پر آئی سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملہ کیا ۔ یہ دن پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کا آخری دن تھا اسکے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہوگئے اور پاکستانی عوام اپنی سرزمین پر بین الاقوامی کھلاڑیوں کو دیکھنے سے محروم ہوگئی ۔ اب آٹھ سال بعد اسی شہر اسی گراوٴنڈ میں پی ایس ایل کا فائنل منعقد کیا گیا ۔ ان آٹھ برسوں میں پاکستان نے دہشتگردی کے بڑے سانحات اور ہولناک واقعات کا سامنا کیا آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں کی المناک شہادت سے لے کر کوئٹہ میں وکلاء کا بےدردی سے قتل ہو آئے روز کسی نہ کسی مسائل اور دہشتگردی کے واقعات سے پاکستان دوچار رہا ۔ ان حالات میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کی پاکستان آمد محض پاکستانی عوام کے لیے کسی خواب سے کم نہ تھی ۔

انتہائی سنگین حالات ہونے کے باوجود پاکستان کرکٹ بورڈ اور حکومت نے قذافی اسٹیڈیم میں پی ایس ایل کا پرامن فائنل کا کامیاب انعقاد کیا ۔ فل پروف سیکیورٹی انتظامات کیے گئے ۔ غیر ملکی کھلاڑیوں نے بھی بھرپور شرکت کی ۔ غیر معمولی اقدامات پر حکومت پاکستان اور کرکٹ بورڈ خراج تحسین کا مستحق ہے ۔ سیاسی مخالفت اپنی انا اور ضد کے باعث کچھ حضرات نے اس ایونٹ کے انعقاد پر سخت تنقید کے تیر برسائے ایک جماعت کے لیڈر اور سابق کرکٹر جناب عمران خان صاحب نے تو پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کی اس کوشش کو بجائے قدر کی نگاہ سے دیکھنے کہ اسے پاگل پن قرار دیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ صرف ایک فائنل میچ سے انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی ممکن نہیں ، نہ اس فائنل سے لوگ سری لنکن ٹیم پر حملے کو بھولیں گے ، نہ ہی پاکستان دہشگردی کی عفریت پر قابو پالے گا، نہ طالبان سمیت کلعدم تنظیمیں فائنل میں لوگوں کا جوش و خروش دیکھ کر ہتھیار ڈالیں گی ، نہ قومی دھارے میں شامل ہونگی اور نہ عوام کا طرزندگی تبدیل ہوگا ۔

ہاں اس فائنل سے البتہ دہشتگردی اور مسائل کا شکار قوم کو کچھ دیر کے لیے جو خوشی نصیب ہوئی لیکن وہ بھی کچھ لوگوں کو ہضم نہیں ہوئی ۔ سیاسی جماعتوں اور انکے لیڈران کے مخالف جماعتوں کے ساتھ نظریاتی اور ذاتی اختلافات ضرور ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ سب جماعتیں پوری قوم عوام کی نمائندگی کرہی ہوتی ہیں اور اپنی عوام کی نفسیات کے مطابق انکی خواہشات اور امنگوں کی خاطر فیصلے کرتی ہیں ۔ لہٰذا جب پوری قوم لاہور میں فائنل ہونے پر خوش ہے ، متحد ہے ، ہر طرف خوشی کا سماں ہے ، اپنے سب غم بھلا کر قوم جھوم رہی ہے ، قلندر کے نام کی دھمال ڈال رہی ہے ۔ تو جس کے باعث قوم کو خوشی اور راحت نصیب ہوئی . اس ایونٹ کو پاگل پن قرار دے کر اور عوام کی خواہشات ، نفسیات ، احساسات جذبات کے خلاف بیان دے کر عمران خان کونسی ملک کی خدمت کرہے ہیں ؟؟ غیر ملکی ہمارے مہمان پلیئرز جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پاکستان آئے خان صاحب انہیں پھٹیچر جیسے غیر اخلاقی القابات سے نواز رہے ہیں ۔

یہ وہی عمران خان صاحب ہیں کہ جنہوں نے گذشتہ چار سے ملک میں نفرت کو فروغ دیا ، ہر شخص سے متعلق عوام کے اذہان اور دلوں زہر بھرا ، اداروں پر حملہ آور ہوکر انکی توہین کی ، جلاوٴ گھیراوٴ توڑ پھوڑ سول نافرمانی کی تلقین کی ، ہر فرد کو مجرم ٹھیرایا ، طالبان کا دفتر کھلوانے کی بات کی ، حقانیہ مدرسہ کو تیس کروڑ کی امداد دی ۔ اپنے علاوہ تمام سیاسی شخصیات کو چور ، ڈاکو ، لٹیرا ، قاتل گردانہ ، چار سال تک یہ سبق پڑھایا کہ کوئی ایماندار نہیں کوئی قابل اعتبار نہیں ۔ پہلے چینی صدر کی آمد کے مخالفت کی، اردگان کی آمد پر جوائنٹ سیشن کے مخالفت کی ، کشمیر پر جوائنٹ سیشن کے مخالف تھے اور اب پی ایس ایل کے فائنل کو پاکستان میں منعقد کرنے کی مخالفت اور غیر ملکی کھلاڑیوں کو پھٹیچر کا طعنہ تک دے دیا ۔

حکومت اور نجم سیٹھی سے اختلافات کے باعث گھر آئے مہمانوں پر طعن و تشنیع کرنا انہیں پھٹیچر کہہ کر انکی توہین کرنا کیا ایک قومی لیڈر کو زیب دیتا ہے ؟ خان صاحب جان ہر چھوٹے بڑے کھلاڑی کو عزیز ہوتی ہے ان حالات میں جو غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آئے وہ پھٹیچر نہیں ہمارے محسن ہیں ۔ دومرتبہ ورلڈکپ جیتنے والا ڈیرن سیمی، دومرتبہ ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کا حصہ ورلڈکلاس بیسٹ بیٹسمین جسکو سر کا خطاب ملا ویوین رچرڈ،، اور ون ڈے کرکٹ کو نیا رنگ دینے والا ڈین جونز، مارلن سیمیولز جسکی اننگز نے ویسٹ انڈیز کو چیمپئن بنوایا ، کیا یہ پھٹیچر پلئیرز ہیں ؟

خان صاحب تنقید ضرور کریں مگر تضحیک آمیز غیرمعیاری کلمات سے سے آپ کو گریز کرنا چاہیے تھا ۔ اگر مہمان نوازی کے دیگر تقاضوں کو آپ نے فراموش کرہی دیا تھا تو کم از کم الفاظ تو مہذب استعمال کیے جاسکتے تھے ؟ آپکی جنگ ، اختلافات نواز شریف اور اسکی حکومت سے ہے تو غیر ملکی پلئیرزکی توہین تضحیک سے کیا مراد ہے ؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ یہ نواز شریف سے نفرت کا اظہار ہے یا طالبان سے محبت ؟ کیا قوم کی دو گھڑی کی خوشی ، سکون سے بھی آپکو اختلاف ہے ؟ کیا قوم بس دھماکوں کا سوگ مناتی رہے ؟ اپنے پیاروں کی شہادت پر ماتم کرتی رہے ؟ کیا ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں آپ اپنی سیاست سے کچھ لمحے کے لیے گریز نہیں کرسکتے ؟

افسوس ! خان صاحب افسوس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے