آدمی سے آدمی کو خطرہ ہے

قوموں کی زندگیوں میں دو پہلو یا دو حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں چاہتے ہوئے بھی کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔قوموں کی زندگیوں کا ایک پہلو یہ ہے کہ جب زندگی بھوک اور افلاس کی کڑی دھوپ میں جل رہی ہوتی ہے ،جینا مشکل اور مرنا لازم ہو جاتا ہے ۔بارش کی طلب ہوتی ہے مگر بارش برستی نہیں ،جینے کی خواہش تو ہوتی ہے مگر جینے کے اثرات بہت کم نظر آتے ہیں،آسمان آگ برسا رہا ہوتا ہے،آب و دانہ کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا ،ہاتھ سے پھسلتی ریت کی طرح جسم سے روح پھسل رہی ہوتی ہے ۔زندگی کی یہ حقیقت تب نظر آتی ہے جب قومیں قحط کا سامنا کر رہی ہوتی ہیں۔

قوموں کی زندگیوں کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب جینے کے لیئے سب کچھ میسرہوتا ہے ،موسم وقت پر آتے جاتے ہیں ،آسمان بارش برسا رہا ہوتا ہے اور زمین اناج جیسی نعمت انسانوں کو فراہم کر رہی ہوتی ہے ،دور سے دیکھو تو زندگی بہت حسین و رنگین نظر آتی ہے مگر ان سب رنگینیوں کے باوجود زندگی سستی اور بے معنی ہوتی ہے ،انسان جیتا ہے مگر جینا بے مقصد سا معلوم ہوتا ہے ،انسان حشرات الارض کی طرح زندگی بسر کرتا ہے ،زندگی کی اس حقیقت کو قحط الرجال کہتے ہیں ۔

قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی ۔مرگ انبوہ کا جشن ہو تو قحط،حیات بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔ایک عالم موت کی ناحق زحمت کا اور دوسرازندگی کی ناحق تہمت کا ۔ایک سماں حشر کا اور دوسرا حشرات الارض کا ۔زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط الرجال کا غم کھایا کرتے ہیں۔

ارض پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اسے قحط سے زیادہ قحط الرجال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔قحط کا سامنا توارض پاکستان کو کبھی کبھار کرنا پڑتا ہے،مگر قحط الرجال کا موسم اتنا طویل تر ہوگیا ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا۔

قوموں کو قحط الرجال کی مصیبت سے ہمیشہ بڑے لوگ نکالتے ہیں۔پاکستانی قوم پر آج جو مصیبتوں اور مسائل کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں کو ئی ایسا لیڈر نہیں جو عوامی طاقت کو ساتھ لے کر چلے ،جو الائشوں کا صفایا کردے،جو حاظر سٹاک ہو،مگر یہاں ستم ظریفی یہ ہے کہ قیادتیں خود غرض،بد دیانت اور موقع پرست ہیں اور یہ ناکارہ قیادتیں اب موروثی ہو چکی ہیں جس کے باعث چند ہی خاندان بر سر اقتدار آتے ہیں اور لوٹ مار کا بازار گرم کر دیتے ہیں،اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں اور غرور اور ناشکری سے واپس چلے جاتے ہیں۔

ناشکری کا نتیجہ بے ہنری سے سامنے آتا ہے ،جہاں ناشکر ،بے ہنر،خود غرض اور موقع پرست جمع ہوجائیں وہاں منافقت کادور دورا ہوتا ہے ،ملک میں بسنے والوں کی قدر قیمت کم ہوجاتی ہے۔ہنر ورقدرناشناسی سے بے ہنری کو فروغ ملتا ہے،کم ظرف کو جب سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے تو اشراف کی عزت میں کمی ہوجاتی ہے اور منافقت کے لیئے یہ فضابڑی سازگار ہوتی ہے ۔منافق کے دل میں کچھ ہوتا ہے اور زبان پر کچھ اور،وہ دو قدم زبان کے ساتھ اٹھاتا ہے اور چار قدم دل ہی دل میں پیچھے چلاجاتا ہے ۔

قحط الرجال کے حوالے سے مختار مسعود اپنی کتاب’’آواز دوست‘‘میں لکھتے کہ خدا جب کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو اس میں بڑے لوگ پیدا کرنا بند کر دیتا ہے،اور قوم کو مصیبت اور قحط الرجال سے بڑے لوگ ہی نکالتے ہیں تو کسی قوم میں بڑے لوگوں کا پیدا نہ ہونا خدا کا اس قوم پر عذاب ہوتا ہے ۔
قوم پر خدا کے عذاب کی وجہ برے اعمال اور خدا کی نافرمانی ہوتی ہے ۔اس بارے میں واضح الفاظ میں قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:
خشکی اور تری میں لوگوں کے برے اعمال کی وجہ سے فساد پھیل گیاتاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو بعض برے اعمال کی سزا دنیا میں چکھادے شایدکہ لوگ برے اعمال سے باز آجائیں(سورۃالروم)

اور (لوگو) تم پر جب مصیبت آتی ہے تو تمہارے ہاتھوں نے جو کیااس کی سزا میں اور بہت(سے قصور) معاف کر دیتا ہے(سورۃشوریٰ)

ان دونوں آیات میں واضح طور پر یہ بات سمجھا دی گئی ہے کہ خشک سالی ہو ،سیلاب،زلزلے یاطوفان ہوں ،قحط الرجال ہو،اندرونی و بیرونی جھگڑے یا دیگر فسادات ہوں یہ سب انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔یہ ساری مصیبتیں انسان پر اس لیئے آتی ہیں کہ انسان ان سے عبرت حاصل کرے اور انہیں اپنی اصلاح کا ذریعہ بناتے ہوئے اپنے حالات میں تغیر پیدا کرے ۔

آج اگر ہم اپنے حالات پر نظر ڈالیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا جائزہ لیں تو حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوئی برائی نہیں جسے من حیث القوم ہم نے اپنے سینے سے نہ لگایا ہو ،شرک و بدعات،توہمات و خرافات،بے حیائی و عریانی ،فخاشی ،ذخیرہ اندوزی ،سود خوری ،بد دیانتی ،کرپشن ،لوٹ کھسوٹ اور قتل غارت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہم گم ہیں۔سود جسے قرآن نے اللہ اور رسولﷺ کے خلاف جنگ قرار دیا ہے اسے عام آدمی سے لے کر حکومت تک کوئی بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا اور دعویٰ ہم کرتے ہیں خوشخالی اور ترقی کے راستے پر چلنے کا۔

ہم بغیر سوچے سمجھے مغربی اقوام کی طرز زندگی اپنانے کے چکر میں دھکے کھا رہے ہیں۔اللہ اور رسولﷺ کی نافرمانی کی طرف اپنے قدم بڑھارہے ہیں اسکے بدترین نتائج بھی سامنے آتے ہیں مگر پھر بھی ہم یہ روش چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے ۔زندگی کے ہر شعبے میں ،تہذیب وتمدن،معاشرت اور معشیت،سیاست و عبادت میں ہم پر یہودونصاریٰ اورہندوانہ تہذیب کے اثرات کی چھاپ نظر آتی ہے ۔

اب اگر پاکستان سے ہٹ کر اس عہد کی بات کی جائے تو اس عہد کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انسان گھٹ گئے ہیں اور سائے بڑھ گئے ہیں ۔انسان کی انسانیت روبہ زوال ہے ۔معاملہ ہر جگہ ایک جیسا ہے ۔امریکہ جو اسوقت سپر پاور ہے اس امریکہ کی سیاست میں آج اگر کوئی جارج واشنگٹن،تھامس جیفرسن،ابراہام لنکن اور لیڈی روزویلٹ کو ڈھونڈنے نکلے تو اسے مایوسی ہو گی ،وہاں بھی انسانیت کا قد اتنا کوتاہ ہو گیا ہے کہ اگر بانس باندھ کر اسے اونچا بھی کیا جائے تو بمشکل جارج ڈبلیو بش جیسا کوئی بونا دکھائی دیتا ہے اور ا ب تو بانس بھی کام نہیں دیتے ،بش کی پاڑتی کو جو آدمی اس وقت ملک کا صدر ہے ،اس نے ہوس پرستی،عیاشی ،تعصب اور نفرت کو بڑی ڈھٹائی سے اپنی شناخت بنایا ہے ۔عظیم انسان تو دور محض اس سطح کے لوگ بھی اب خال خال نظر ملتے ہیں جن کو آدمی سمجھ کر کوئی ان کے پاس جابیٹھے۔

انسان کو بڑا دولت بناتی ہے ،یہ خیال ایک جاہل انسان کا ہوتا ہے ۔ایک دانشور کے نزدیک انسانیت اور مقاصد انسان کو بڑھا بناتے ہیں۔دولت تو ٹرمپ کے پاس بھی بہت ہے لیکن مقاصد کی بلندی اور انسانیت کے جوہر سے وہ خالی ہے ۔مقاصد ہی سے انسان کی شخصیت سازی ہوتی ہے ۔مقاصد پست اور گھٹیا ہوں تو انسانیت گر جاتی ہے،مقاصد میں پاکیزگی اور علویت نہ ہو تو عقلیں کوتاہ اور زبانیں لمبی ہوجاتی ہیں،چھوٹے لوگ بڑے مقاصد لے کر نہیں اٹھتے ،وہ اپنی ذات کے اسیر اور اپنی اغراض کے بندے بن کر رہ جاتے ہیں۔

ہمارے ملک میں قحط الرجال کے موسم خزاں میں کبھی کبھار پھول کی کونپلیں کھلناشروع ہوتی ہیں،ایک امید سی لگتی ہے مگر عقلیں کوتاہ ،زبانیں لمبی ہونے اور اپنی ذات کی اسیری موسم خزاں کو ختم نہیں ہونے دیتی۔
اب اس صورتحال سے نکلنے کے لیئے ضروری ہے کہ ہم اسلام کے زریں اصولوں کو اپناتے ہوئے ایک نئے پاکستان کی تعمیر کریں ۔عزت کامعیار دھن ،دولت نہیں بلکہ اہلیت اور صلاحیت کو بنایا جائے ،شخصیت پرستی کے خول سے نکل کر دیانت داری اور ایمانداری کو شعار بنایا جائے ۔اسی میں ہماری بقا کا راز مضمر ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے