عورت ہونے پر فخر کیوں؟

جب عورت کی تخلیق کی گئی تو اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ ” چاندنی کی ٹھنڈک، شبنم کے آنسو، ستاروں کی ضوفشانی، بلبل کے گیت، چکور کا انتظار، گلاب کے رنگ و تازگی، کوئل کی پکار، سمندر کی گہرائی، رفعت کی بلندی، دریا کی روانی، کہکشاں کی رنگینی، زمین کی چمک، آہو کی رحمدلی اور صبح کا نور حاضر کرو تو فرشتوں نے عرض کیا یااللہ اس ذی روح کی تخلیق میں آپ نے سب کچھ شامل کیا اپنی طرف سے کیا دیا تو جواب ملا ( محبت )

عورت ہر روپ اور ہر رشتہ میں عزت، وقارکی علامت، وفاداری ،محبت اور ایثار کا پیکر سمجھی جاتی ہے۔انسان کسی بھی منصب اور حیثیت کا حامل ہو زندگی کے سفر میں کسی نہ کسی مرحلے پر کسی خاتون کا احسان مندضرور ہوتا ہے اور ہو بھی کیوں نہ! روئے زمین پر نوع انسانی کی بقاء کا سفر تنہاکسی ایک صنف کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ لہذا اسلامی معاشرے ہوں یا یورپی معاشرے ، خواتین کی اہمیت سے انکار کا تو جواز ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ہم کوئی سوسائٹی ایسی نہیں بنا سکتے جو تنہا مردوں پر مشتمل ہو اور جس میں عورت کی ضرورت نہ ہو ، دونوں ایک دوسرے کے یکساں محتاج ہوتے ہیں نہ عورت مرد سے مستثنی ہے اور نہ مرد عورت سے بے نیاز۔ عورت کی سعی و جہد میں جو خلا رہتا ہے اسے مرد پورا کرتا ہے اور مرد کی دوڑ دھوپ میں جو کمی ہوتی ہے اس نقص کو عورت پورا کرتی ہے

حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کے علاوہ دنیا میں کوئی نفس ایسا نہیں آیا جسے ماں نے جنم نہ دیا ہو۔ اگر ہمارے لئے ماں محترم ہے تو دنیا کی ہر عورت محترم ہونی چاہیے ۔یوں بھی عورت کا اسحتصال اور اسے حقیر اور کمزور سمجھنا عہد جہالت کی شرمناک کہانی ہے ۔ عالم عرب میں اسلام نے ہی جدید اور مہذب ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھی اور بنیادی انسانی انسانی حقوق کا غصب ، ظلم وجبر اور طاقت کے بے جا استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے۔

بیٹیوں کی ولادت کو باعث شرم سمجھنا اور اس جیسے دیگر اطوار کی حوصلہ شکنی بھی کی۔ انسان کو انسان بلکہ ہر جاندار کے حقوق کا احترام سکھایا۔عورت کوایسا باعزت مقام عطا کیا جو رہتی دنیا تک ہمارے لئے مشعل راہ ہے. خواتین کو اپنا تشخص قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے پہلا قدم خود ہی اٹھا نا ہو گا ۔

معاشرہ مرد کا سہی لیکن کیا یہ بھی ثابت کیا جا سکتا ہے کہ مردوں کے اس معاشرے کی تشکیل میں کبھی کسی عورت کا عمل دخل نہیں رہا؟

نہیں ایسا ممکن ہی نہیں ہے ۔ در حقیقت ابتدائے زندگی سے آج تک یہ اپنی شخصیت کے بھرپور احساس کے ساتھ ہر میدان میں موجود ہے . یہ الگ بات ہے کہ کچھ مراحل پے اسے اپنی اہمیت کا احساس نہ رہا ہو۔ بنت حوا کا وہ چہرہ جس کے نقوش وقتی تقاضوں، مفروضوں اور دیگر نام نہاد جدت طرازیوں سے گرد آلود ہو کر رہ گئے ہیں ان کو شناخت کریں، آگے بڑھیں کیونکہ ترقی کا سفر روایات اور جدت کے توازن کے بغیر ممکن نہیں۔

عورت کا اصل وصف حیا اور نسوانیت اس کا حقیقی حسن ہے پھر یہی خوبیاں نمو پا کر خلوص، ہمدردی، محبت ، ا یثار ، اور مستقل مزاجی جیسے باوقار جذبوں کی شکل میں نمایاں ہوتی ہیں۔ دھرتی کے ٹھہراؤ سے لیکر دریاؤں کے طلاطم جیسے جذبات کو سینے میں سموئے یہ ہستی ماضی حال اور مستقبل کے پر پیچ اور طویل راستوں پرمستقل مزاجی سے رواں دواں ہے اور نسل انسانی کی نہ صرف پرورش اور رہنمائی کا فریضہ انجام دینے میں ہمہ تن مصروف ہے بلکہ وقت پڑنے پر اپنے فطری کردار کے دائرہ کار سے باہر بھی ہر سمت میں ہر محاذ پر اپنی فتح کا علم بلند کرنے کے حوصلے سے مالا مال ہے۔

اسلام جس اسلامی معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے وہ خواتین کو پیچھے چھوڑ کر اور ان کا ہاتھ تھامے بغیر ممکن ہی نہیں ہے جس کی گود سے ملک چلانے والے سیاست دان، نامورجرنیل ، عادل جج اور امانتدار تاجر حاصل ہوں تو ایسے گہوارے کو نظرانداز کیا ہی نہیں جا سکتا۔

علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرہ ء نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر

ایک دفعہ بصرہ کے کچھ لوگ رابعہ بصری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے
اے رابعہ! مردوں کو کیوں ایسے مرتبے حاصل ہوئے جو عورتوں کو کبھی نہیں مل سکے ۔ کیا اس کا یہ سبب تو نہیں کہ عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں اسی لئے دو عورتوں کی گواہی بھی ایک مرد کے برابر ہوتی ہے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ نے مرتبہ نبوت پر بھی مردوں کو ہی فائز کیوں کیا اور اس اعزاز سے ہمیشہ عورتوں کو محروم رکھا

حضرت رابعہ نے جواب دیا بھائیو ! کیا تم نے کبھی سنا ہے کہ کسی عورت نے آج تک خدائی کا دعوی کیا ہو ۔ ایسا بھی مردوں ہی نے کیا کہ خدائی تک کا دعوی کرنے سے گریز نہ کیا۔ رہی دوسری بات تو یہ سچ ہے کہ اللہ تعالی نے کبھی کسی عورت کو مرتبہ نبوت پہ فائز نہیں کیا مگر یہ بھی تو سوچو کہ جتنے نبی، اولیا، صدیق۔ شہید گزرے ہیں وہ سب عورت کے بطن سے ہی پیدا ہوئے ہیں انہی کی گود میں تربیت پائی اور پروان چڑھے ۔ کیا عورتوں کا یہ مرتبہ کچھ کم ہے یہ سن کر سب لاجواب ہو گئے۔

اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی عورتوں کی صلاحیت سے معاشرے کو مستفیض کرنے کیلئے واضح احکامات کے ذریعے اس صنف نازک کے حقوق کا تعین بھی کیا اور اس کے دائرہ کار کی وضاحت بھی فرما دی۔ عورت اپنے صبر و قناعت ، ہمدردی و اخلاص، سچائی و عفت، شرم و حیا، عفو و درگزر اور حسن اخلاق سے نہ صرف اپنے گھر بلکہ اپنے شہروں ، ملکوں ، گھروں اور قوموں کے عروج کا باعث بنتی ہے کہ بنی نوع انسان کو اخلاقی رشتوں میں پرو دیتی ہے جو قومیں ایسی ماؤں کی سائے میں بیٹھتی ہیں وہ اخوت کا درس ہی سیکھتی ہیں اور دلوں کو نسلی، صوبائی اور مذہبی عصبیتوں سے داغدار نہیں کرتیں بلکہ زخموں کے لئے مرہم کا کام کرتی ہیں۔

صنف نازک کہلانے والی یہ مخلوق اپنے آہنی ارادوں اور انقلابی عزم و ہمت کا پیکر ہونے کے باوجود وسیع القلبی ، شفقت و مہربانی اور درگزر جیسی خصوصیات کا مجموعہ ہے اور یہ خواص کسی خاص خطہ ، اراضی یا کسی خاص قوم کی خواتین کی ملکیت نہیں بلکہ ہر خاتون کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہے۔ عورت سے پورا استفادہ اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب عورت کو اس کے بنیادی حقوق بہم پہنچائے جائیں جن میں پہلا حق تعظیم و اکرام ہے . جن اقوام نے اپنی خواتین کو معزز جانا ان کا احترام کیا ان کے حقوق کی پاسداری کی ان کی نام بلندیوں تک جا پہنچے اور جن لوگوں نے اپنی عورتوں کو حقیر جانا وہ ذلیل و خوار ہوئے۔ اسلام نے عورت کے تمام حقوق چودہ سو سال پہلے ہی وضع کر دیے تھے . اب یہ مردوں پہ منحصر ہے کہ وہ کس طرح اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے عورتوں کو ان کے حقوق باہم پہنچاتے ہیں تاکہ وہ عزت و وقار کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے