ایران کے زیرسایہ ملشیا پاکستانیوں اور افغانیوں کو شام میں لڑنے کیلئےبھرتی کر رہی ہے.

افغان اور پاکستانی شعیہ جنگجوؤں پر مشتمل فاطمیون برگیڈ اور زینبیون برگیڈ حکومتِ شام کے لیے لڑ رہے ہیں۔

کوئٹہ — ایران کے محافظانِ انقلابِ اسلامی کور (آئی آر جی سی) سے منسلک عسکریت پسند شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت میں لڑنے کے لیے افغانستان اور پاکستان سے شعیہ مسلمانوں کو بھرتی کر رہے ہیں۔

پاکستانی وزارتِ دفاع کے ایک عہدیدار نے اپنی شناخت خفیہ رکھے جانے کی شرط پر بتایا، ”افغان شعیہ جنگجؤں پر مشتمل فاطمیون پرگیڈ اور پاکستانی شیعہ عسکریت پسندوں پر مشتمل زینبیون برگیڈ شام میں آئی آر جی سی، حزب اللہ اور ایران کی سرپرستی تلے دیگر عراقی ملشیا کے ہمراہ لڑ رہے ہیں“۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”بھرتی کے بعد، یہ شعیہ جنگجو تعیناتی سے قبل پانچ ہفتے کی ایک تربیت سے گزرتے ہیں، اور انہیں خصوصی عسکری تربیت ایران کے صوبہ یزد اور چند دیگر خفیہ اڈوں پر دی جاتی ہے۔“

انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں میں سینکڑوں پاکستانی اور افغان شعیہ جنگجوؤں نے حلب، شام میں بھی تربیت حاصل کی۔

انہوں نے کہا، ”ہماری اطلاعات ہیں کہ شام میں جنگ میں شامل پاکستانی شعیہ جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی سے ایران میں مقیم تھی، جبکہ دیگر پارہ چنار، کوئٹہ، لاہور، سکھر اور پاکستان کے چند دیگر علاقوں سے آئے۔“

[pullquote]شام میں آئی آر جی سی کی تربیت یافتہ مسلح ملشیا[/pullquote]

فاطمیوں برگیڈ 2014 میں تشکیل پائی اور یہ زیادہ تر ایران میں مقیم تقریباً 3 ملین افغانیوں میں سے جنگجو بھرتی کرتی ہے۔

دیگر میڈیا رپورٹس کے مطابق، اس کے پاس تقریباً 20,000 جنگجو ہیں اور شام میں لڑنے والے آئی آر جی سی کی پشت پناہی کے حامل متعدد ملشیا میں سے سب سے زیادہ نقصانات کا سامنا اسی نے کیا ہے۔

دسمبر میں ایرانی کمانڈروں کی کمان تلے خدمات سرانجام دیتے ہوئے، دسمبر میں اس گروہ نے ”دولتِ اسلامیۂ عراق و شام“ (آئی ایس آئی ایل) کو پالمیار، شام سے نکال باہر کرنے کے لیے حکومت کی حلیف افواج کے اتحاد کے ساتھ ہمراہ جنگ لڑی۔

زینبیون برگیڈ نسبتاً قلیل ہے اور 2013 میں ابتدائی طور پر اسے شام کے مقاماتِ مقدس کے تحفظ کا کام سونپا گیا تھا۔ 2015 کے اوائل میں اس کی تعداد اس قدر ہو گئی کہ یہ اپنی ڈویژن برسرِ پیکار لا سکے اور اس نے دارا اور حلب کے گرد جارحانہ معرکوں میں شمولیت اختیار کی۔

یہ ایران میں رہنے والے شعیہ پاکستانیوں، پاکستان میں مقیم شعیہ ہزارہ پناہ گزینوں اور پاکستان کے دیگر مقامی شعیہ کو بھرتی کرتی ہے۔

دونوں گروہوں کو آئی آر جی سی پیسہ اسلحہ اور تربیت فراہم کرتی ہے۔ ان کی تعیناتی میں اپنی نظریاتی جنگ کے لیے شام میں لڑنے کی غرض سے – لبنان، عراق، یمن اور دیگر ممالک سمیت– تمام تر خطہ سے شعیہ افراد کو بھرتی کرنے والی آئی آر جی سی کے نمونہ کی پیروی کی جاتی ہے۔

مبینہ طور پر آئی آر جی سی جنگجوؤں کو تقریباً 500 ڈالر ماہانہ ادا کرتی ہے، اور انہیں اور شام میں مارے جانے والے جنگجوؤں کو ایرانی رہائش کے کاغذات کی پیشکش کرتی ہے۔

[pullquote]جنگجوؤں کی ترسیل میں تسہیل[/pullquote]

پاکستان میں بھرتی شدہ جنگجو شعیہ زائرین کے روپ میں بھی سفر کرتے ہیں۔

پاکستانی دفاعی عہدیدار نے کہا، ”گزشتہ برس کوئٹہ اور تافتان میں زیرو پوائنٹ بارڈر کراسنگ پر سیکیورٹی فورسز نے زینبیون کے ساتھ مبینہ روابط پر 39 شعیہ زائرین کو گرفتار کیا۔“ انہوں نے مزید کہا کہ تحقیقات جاری ہیں۔

اسلام آباد میں وزارتِ داخلہ کے ایک عہدیدار محمّد عبداللہ خالد نے تصدیق کی کہ پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیاں یہ معلوم کرنے کے لیے ملک میں شعیہ زائرین کی حرکات کی قریبی نگرانی کر رہی ہیں کہ آیا ان کے زینبیون سے روابط ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیاں پاکستان میں شعیہ عسکریت پسندوں کے حامیوں کے نیٹ ورک کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔“

انہوں نے کہا، ”یہ ہماری قومی سلامتی کے لیے ایک شدید خدشہ ہے کہ پاکستانی شہریوں کو فرقہ ورانہ فوائد کے لیے شام کی جنگ میں استعمال کیا جا رہا ہے۔“

خالد نے کہا کہ پاکستانی بحری سلامتی ایجنسی کے اہلکاروں نے 8 فروری کو بلوچستان کے قریب جاوانی کے ساحل سے کچھ فاصلے پر دو کشتیوں میں سوار تین ایرانیوں سمیت 13 عسکریت پسند ملزمان کو گرفتار کیا۔ ”یہ ملزمان غیر قانونی طور پر پاکستانی علاقۂ عملداری میں داخل ہو رہے تھے۔“

انہوں نے کہا، ”یہ 13 ملزمان ۔۔۔ اعلیٰ سطحی تفتیش میں ہیں، اور ابتدائی تحقیقات میں ثابت ہوا ہے کہ یہ لوگ بلوچستان سے بھرتی کنندگان کی شام کو ترسیل میں تسہیل کر رہے تھے۔“

انہوں نے کہا، ”قبل ازاں مارچ 2016 میں زینبیون کے ذریعے بھرتی کیے گئے دو شعیہ جنگجوؤں کو بھی ۔۔۔ کوئٹہ میں زیرِ حراست رکھا گیا تھا۔“ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے انہیں شام سے لوٹنے پر گرفتار کیا تھا۔

انہوں نے کہا، ”ہمارے انسدادِ شورش کے اہلکاروں کے مطابق شام کی جنگ کے لیے پاکستان میں خفیہ طور پر بھرتی کیے گئے جنگجوؤں کو 60,000 روپے [573] ڈالر سے 110,000 روپے [1,050 ڈالر] تک ادا کیا جا رہا ہے۔“

یہ تنخواہیں نوجوانوں کے لیے پر کشش ہیں، لیکن ان میں سے متعدد گھر واپس نہیں لوٹتے۔

خالد نے کہا، ”ان جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد شام کے مختلف حصّوں میں ماری جا چکی ہے۔“

[pullquote]فاطمیون کی جانب سے افغان نوجوانوں کا استحصال[/pullquote]

کابل سے تعلق رکھنے والے ایک سابق قانون ساز وکیل اسداللہ نے کہا کہ افغانستان میں فاطمیون زیادہ تر کابل اور ہیرات سمیت شعیہ اکثریت کے علاقوں سے افغان نوجوانوں کو بھرتی کر رہے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”فاطمیون افغانستان میں امنِ عامہ اور حقوقِ انسانی کی نازک صورتِ حال کا استحصال کر رہے ہیں اور حکام اسے نظرانداز کر رہے ہیں۔“

اسداللہ نے کہا کہ کابل کے علاقہ دشتِ برچی میں فاطمیون بھرتی کنندگان خفیہ طور پر کام کر رہے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ یہ گروہ ہیرات اور کابل میں کام کرنے والی ٹریول ایجنسیوں کے ذریعے اپنے چند بھرتی شدگان کو ایران بھیجتا ہے۔

انہوں نے کہا، ”افغانستان میں شعیہ جنگجوؤں کی بڑھتی ہوئی بھرتی سے افغانستان کے بدامن جنوب مغربی حصّوں کے لیے ایک خطرناک صورتِ حال پیدا ہو رہی ہے۔“

انہوں نے کہا، ”حکومتِ افغانستان کو افغانستان میں ایران کی پشت پناہی رکھنے والے عسکریت پسندوں کے خاتمہ کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہیئں۔ یہ عناصر افغانستان کے بدامن حصوں کو مزید غیر مستحکم کر رہے ہیں۔“

[pullquote]ایران فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے[/pullquote]

جلال آباد میں مقیم ایک سیکورٹی تجزیہ کار، فرہاد جہانی نے بتایا، "ایران خطہ میں فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دے رہا ہے، اور شام کی جنگ کے لئے افغان نوجوانوں کی بھرتی افغنستان میں سنی اور شیعہ آبادی کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کی ایک کوشش ہے۔”

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "بےروزگار افغانوں کی ایک بڑی تعداد ایران کی طرف مائل ہو رہی ہے، لیکن ایک بارجب وہاں پہنچتے ہیں تو عسکریت پسند گروہ ان کو بھرتی کر لیتے ہیں۔”

انہوں نے بتایا، "اب تک 500 سے زیادہ شیعہ افغان جنگجو شام کے مختلف علاقوں میں بشار الاسد کی حکومت کے لئے لڑتے ہوئے مارے جا چکے ہیں۔”

انہوں نے بتایا، مزار شریف کے علاقے سے تعلق رکھنے والی شیعہ برادری کے ارکان کی ایک بڑی تعداد شام کی جنگ کا حصہ ہے، ان میں سے زیادہ تر کو فاطمیون ملیشیا نے بھرتی کیا ہے۔

انہوں نے بتایا، "جنگ کرنے کے بدلے، افغان شیعہ جنگجوؤں کو ایران میں رہائش کا اجازت نامہ پیش کیا جاتا ہے۔”

انہوں نے بتایا، افغانستان کے شیعہ نوجوانوں کو خصوصی فوجی تربیت فراہم کرنے سے ایران کا مقصد، جنگجوؤں کا ایک ڈویژن تیار کرنا ہے جو افغانستان سے غیر ملکی قوتوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں طالبان اور دیگر سنی عسکریت پسند گروہوں سے جنگ کر سکے۔

[pullquote]بھرتی کی بنیادی وجوہات سے نمٹنا[/pullquote]

اسلام آباد میں مقیم سینئر دفاعی اور سیکورٹی تجزیہ کار پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر حسن عسکری رضوی نے بتایا، "جیسا کہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سنی عسکریت پسند گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں ایسے ہی ایران کے لئے شیعہ جنگجوؤں کو بھرتی کرنا اور دیگر اسلامی ملکوں میں اپنی موجودگی بڑھانا ایک نظریاتی منصوبہ ہے۔”

انہوں نے بتایا، پاکستانی حکومت کو ملک کے شیعہ نوجوانوں کی ایرانی مقاصد کے لئے بھرتی کو بہت سنجیدگی سے لینا ہو گا۔ انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، یہ کارروائیاں ملک میں فرقہ وارانہ تقسیم کو وسیع کر رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا، "ریاست کو بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں کا فقدان جیسے مسائل حل کرنا ہوں گے جو ہمارے نوجوانوں کو کالعدم گروہوں کے ہاتھوں میں دھکیل رہے ہیں۔”

رضوی نے بتایا، "ایرانی قانون جو حکومت کو ایرانی مقاصد کے لئے شام میں ہلاک ہونے والے غیر ملکی خاندانوں کو رہائش کی اجازت کے لئے اختیار دیتا ہے، شیعہ نوجوانوں کی جنگ میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کی کوشش ہے۔”

انہوں نے بتایا، "زینبیون جیسے عسکریت پسند گروہ غریبوں اور کمزور نوجوانوں کا استحصال کر رہے ہیں۔”

انہوں نے بتایا، "وفاقی حکومت کو بے روزگاری کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیئیں، ایسا کرنا، عسکریت پسندوں کی شیعہ یا سنی نوجوانوں کی اپنے مقاصد کے لئے بھرتی کی کوشش ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے