پریس کلب اسلام آباد کا شراب خانہ

چند ہفتے قبل یہ اطلاع ملی تھی کہ پریس کلب اسلام آباد میں رات گئے نشے میں کچھ صحافی دوستوں کی لڑائی ہوئی تھی جس کے بعد پریس کلب میں قائم شراب خانہ جسے کارڈ روم کا نام دیا گیا ہے وہ بند کر دیا گیا ، شکیل انجم صاحب کے اس اقدام کے بعد بہت خوشی ہوئی کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے ، چاہے وجہ جو بھی ہوئی یہ برائی پریس کلب کی حدود سے تو نکلی ، لیکن چند دن بعد ہی دوبارہ کھول دیا گیا کمیٹیاں بنا دی گئیں تاکہ آئندہ لڑائی نہ ہو

میں کوئی بہت اچھا انسان نہیں بہت ہی گناہ گار ہوں نہ عالم ہوں نہ بہت زیادہ پڑھا لکھا ہوں لیکن مجھے بنیادی طور پر یہ علم ہے کہ شراب پینا اسلام میں بھی حرام ہے اور پاکستان کے آئین کو قانون میں بھی اس کو جرم قرار دیا گیا ہے معاشرے میں بھی اس کو سخت نا پسند کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں شراب پینا اور اس کو بڑھ چڑھ کر بیان کرنا اس وقت فیشن بن چکا ہے اور یہ لبرل ہونے کی ہائی سوسائٹی ہونے کی نشانی سمجھا جانے لگ گیا ہے ، شراب پینا ہر شخص کا ذاتی فعل ہے مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے لیکن پریس کلب میں ایک ایسی جگہ ایسا پلیٹ فارم جو صحافیوں کے لیے بنایا گیا ہے وہاں پر ایک طرف تو مسجد بنا دی گئی ہے تو دوسری طرف شراب خانہ قائم کر دیا گیا ہے ، کتنی تکلیف ہوتی ہو گی اس امام مسجد کو جو اس مسجد میں جماعت بھی کراتا ہو گا پھر سامنے شراب خانے سے گزرتا ہو گا وہ بھی مجبور ہے کہ اس کی یہ نوکری ہے اور پریس کلب میں شراب خانہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ لاہور پریس کلب میں بھی ہے کراچی پریس کلب میں بھی ہے ، یہ جواز ہمارے کچھ صحافی دوستوں نے دیا ہے جب ان سے اس معاملے پر رائے پوچھی گئی ، شراب پیئں جو مرضی کریں لیکن اپنے گھروں میں اپنے فلیٹس میں جہاں دل ہے وہاں پی لیں لیکن پریس کلب میں نہیں ، صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے صحافت کو پیغمبروں کا شعبہ قرار دیتے ہیں اور ہم پریس کلب میں شراب خانہ قائم کر کے بیٹھے ہیں

اسلام آباد کے پریس کلب میں جو سہولیتیں دی جانی چاہیے وہ دی نہین جاتی اور بے مقصد کی سہولتوں کے لیے جگہ مخصوص کر دی جاتی ہے ، پریس کلب میں ایک نیشنل بنک کے تعاون سے آئی ٹی روم بنایا گیا تاکہ صحآفی پریس کلب میں بیٹھ کر خبر بنا سکیں خبر اپنے ادارے کو بھیج سکیں ، یہ سہولت کچھ ماہ بعد ختم ہو گئی کمپیوٹرز کی حالت ایسی ہے کہ صرف کھوکھے پڑے ہیں ، ایک دو کمپیوٹر ہیں ، وہ بھی جتنی دیر میں گوگل کھولتے ہیں اتنی دیر میں پیدل دفتر جا کر خبر پہنچائی جا سکتی ہے کیا یہ سہولت پریس کلب میں نہیں ہونی چاہیے ، کیا پریس کلب میں بیس پچیس بہترین کمپیوٹر لگانے میں کیا مسائل درکار ہیں ؟ کیا بہترین انٹرنیٹ پریس کلب میں دستیاب ہے ، کتنے اخبارات ملکی و غیر ملکی رسائل پریس کلب میں موجود ہیں ؟ اب ایک لائبریری بنائی جا رہی ہے مجھے یہ نہیں سمجھ آتی صحافی کی زندگی میں کتابیں پڑھنے کا وقت کب آتا ہے ، ایک کافی شاپ کھول دی گئی ہے اے ٹی ایم مشین لگا دی گئی ہے او بھائی جب جیب میں صحافیوں کے کچھ نہیں ہو گا تو اے ٹی ایم مشین کا کیا کریں گے ، یہ سہولت اس جگہ دی جاتی اگر قریب کوئی بنک یا اے ٹی ایم نہ ہوتا ، پریس کلب سے صرف سو میٹر کے فاصلے پر ملک کا ہر بنک اور پچاس اے ٹی ایم مشینیں لگی ہیں بے مقصد چیزوں کی طرف توجہ دی جاتی ہے بنیادی سہولیتں نہیں دی جا رہیں

ایک پنجابی کہاوت ہے اک اونج وی سوہنی سی اوتے چھلا وی پا بیٹھی پریس کلب کے کیفے کی حالت بہتر کی نہیں جا سکی اور پریس کلب کے باہر کافی شاپ بنا دی گئی ہے اور وہ بھی انتہائی مہنگی ،
پریس کلب انتظامیہ بنیادی طور پر اپنے بارے میں سوچتی ہے کہ ان کی کیا ضروریات ہیں ان کے کیا مسائل ہیں ان کی کیا سوچ ہے اور اس پر کام شروع کر دیا جاتا ہے حالانکہ پریس کلب کے ہزاروں ممبران میں ایک سو ممبران ایسے ہیں جن کی آمدنی قابل ذکر ہے اس کے علاوہ سب کی آمدنی آٹھ ہزار سے بیس پچیس ہزار روپے ہے ان کے لیے بھی کچھ سوچ لیں کہ ان کے کیا مسائل ہیں ان کی کیا سوچ ہے ان کی کیا ضروریات ہیں

ہم صحافیوں کے بہت سے مسائل ہیں ہم پریس کلب میں شراب خانہ قائم کرنے کے حامی ہیں لیکن پارلیمنٹ لاجز میں شراب کی ایک بوتل برآمد ہوئی تو ہم نے آسمان سر پر اٹھا لیا ، ہم پولیس کو سیکیورٹی بہتر نہ کرنے کا الزام دیتے ہیں لیکن پولیس ناکے پر رکنے کو توہین سمجھتے ہیں، ہم کسی ایم این اے کی گاڑی پر لگی ایم این اے کی پلیٹ کو بہت برا سمجھتے ہیں لیکن اپنی گاڑی پر بڑی سے پریس کی نمبر پلیٹ لگاتے ہیں ہم خود حکومت سے مفت اور کم قیمت پر پلاٹ لیتے ہیں لیکن کوئی سرکاری افسر ، جج یا آرمی چیف کو زمین الاٹ ہو جائے تو قیامت ڈھا دیتے ہیں ، ہم وزیر اعظم کے بیرون ملک دورے پر اخراجات زیادہ ہونے کی خبریں دیتے ہیں لیکن ہم وزیر اعظم کے دورے میں سرکاری خرچ پر ہی ساتھ جاتے ہیں ہم حج کرپشن کیس کی خبریں چلاتے ہیں لیکن سرکاری خرچ پر مفت حج کرنے بھی خود ہی جاتے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے