جہاد سے ردُّالفساد تک (حصّہ دوم)

انسانیت اور اسلام کی روح سے نا واقف یہ انسانیت دشمن لوگ اور انکی غیر انسانی سوچ و فکر کس طرح اتنی طاقتور اور مضبوط ہوگئی کہ آج ہماری دفاعی اور قومی ادارے سب انکی بیخ کنی اور قلع قمع کرنے کے لئے میدان میں اُتری ہیں؟؟؟ تو لا محالہ زبان پر یہ الفاظ آجاتے ہیں کہ …اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے..

روس کا افغانستان پر حملہ کرنا،اس کی فتح کی صورت میں پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جانا اور اس کے مقابلے میں ہماری دفاعی اور حکومتی مشینری کا اس طوفان کے سامنے ڈٹ جانا اور پوری شد و مد سے افغانستان کے اُس وقت کے جنگی ناخداؤں کو مجاہد کا درجہ دینا اور اور پاکستان میں انکے خطرناک سوچ کی آبیاری کرنا نہ صرف وہ مقام ہے جہاں سے ان انسانیت دشمن عناصر کے کمزور پودے پلنے پھولنے لگے ۔بلکہ اُس پر ستم یہ کی اس سوچ اور اس فکر کی بڑ ی جراٗت اور بہادری کے ساتھ ملک بھر میں اپنے مزاج کے لوگوں سے حمایت اور تائید بھی کروائی گئی۔

ہمارے دفاعی اداروں نے ببانگِ دُہل افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف ڈٹ جانے والوں کو مجاہدین اور دفاعِ پاکستان کے امین قرار دے دیا۔ افغانستان میں جاری جنگ میں افغانوں کی مدد کے لئے ہم نے یہاں جہاد کے مقدس نام پر جنگی جنونیوں کی تخم ریزی شروع کردی۔وہ لوگ جو کہ نظریاتی طور پر نہ تو دینِ اسلام کے دینِ رحمت کے ہونے کے کبھی داعی رہے اور نہ ہی اسلام کے فلسفہء جہاد سے آشنا تھے۔اچانک اسلحہ ہاتھ میں لیکر اسلام اور پاکستان کے بقاء کی بھاری ذمہ داری کے امین ہوگئے۔ کسی نے انکو ہماری سیکنڈ لائن کی آرمی قرار دے دیا۔ کسی نے ان کو اسلام کے مجاہد کی سند سے نوازا۔ جبکہ اصل اور تلخ حقیقت یہ تھی کہ یہ اسلام کی روح سے نابلد لوگ دو بڑے طاقتوں کی جنگ میں بڑے بہادر کے لئے مہرے کے طور پر کام کر رہے تھے۔

ہماری مقتدر قوتیں اپنے ملک کی دفاع کی جنگ لڑ رہی تھیں اس میں کوئی دو رائے نہیں لیکن سرحدوں کی حفاظت کے اس جنگ میں ہم نے ان لوگوں کو ہمنوا بنا دیا ۔ جنکے لئے ملک ، وطن اور نظریات شاید کوئی معنی ہی نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک انکے مفادات ہمارے اداروں کی وفاداری سے جڑے ہوئے تھے تب تک یہ مجاہد بھی تھے اور وطن پرست بھی ۔ لیکن جیسے ہی دنیاوی مفادات ہمارے دشمنوں کے ہاں زیادہ نظر آئے۔ ان انسانیت دشمنوں نے پلک جھپکنے میں ساری دین داری، ساری خدا پرستی اور اپنا سارا جہاد ملک اور دین دشمنوں کی جھولی میں زیادہ قیمت وصول کرکے ڈال دیا۔

ہمیں یہ تلخ حقیقت مان لینی چاہئے کہ انکے جڑوں کو مضبوط کرنے میں ہماری حکومت، ہمارے دفاعی ادارے اور دین و مذہب کے نام پر اپنا کاروبار چلانے والی مذہبی سیاسی جماعتیں برابر کی حصہ دار ہیں۔اور ہماری فوج کی ان انسان دشمنوں کے خلاف شروع کئے گئے آپریشنز شاید اپنے ہی گناہوں کا کفارہ ادا ہورہا ہے۔تشدد اور نفرت کے اس ڈھیر کو اپنا خون پسینہ دے کر بنانے والی ہمار ی فو ج آج انکی صفائی کے لئے اپنے جوانوں کے خون کا نذرانہ پیش کر رہی ہیں۔ نظریہ ضرورت کے پیشِ نظر پالے گئے ان سانپوں کا سر کچلنے کے لئے دفاعی ادارے سر گرمِ عمل ہیں لیکن آج بھی انکی کامل صفائی کے لئے فوجی قوت کے علاوہ جن دوسرے اور بنیادی کاموں کو کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سے یا تو حکومت اور مقتدر ادارے اور مذہبی قوتیں نظریں چُرا رہی ہیں یا پھر شاید انکی نگاہوں سے یہ حقیقت اُوجھل ہے کہ کسی درخت کی شاخیں کاٹنے سے درخت ختم نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی جڑ سے بیخ کنی نہ کی جائے۔

فوجی آپریشن افراد کو ختم کرسکتی ہے لیکن یہ نظریات کا خاتمہ نہیں کر سکتی۔ قوت نظریات کووقتی طور پر دبا سکتی ہے لیکن انکو ختم نہیں کرسکتی۔اور یہی وجہ ہے کہ بے تحاشہ آپریشنز کے باوجود ہم اس ناسور سے جان نہ چھڑاسکے۔ اس بات کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ آپریشن ردُّالفساد کی ضرورت نہیں یا یہ کہ یہ ایک بے معنی آپریشن ثابت ہوگا بلکہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس آپریشن کے ساتھ ساتھ ہماری حکومت اور مذہبی قوتوں کو نظریاتی محاذوں پر لڑ کر فوج کے اس آپریشن کو مکمل کامیاب بنانا ہوگا۔
لیکن شاید پہلے کی طرح آج بھی ہماری حکومتیں اور مذہبی طبقہ ان لوگوں کے خلاف کھل کر صف آراء ہونے کے لئے تیار نہیں۔ کیونکہ ان دونوں کے سیا سی اورمعاشی مفادات شاید آج بھی ان ملک دشمنوں کے خلاف منہ سی کر خاموشی یا پھر ضرورت کے مطابق نہایت محتاط انداز میں ان کے خلاف گھسے پٹے انداز میں بیان دینے سے جڑے نظر آتے ہیں۔

یہ ایک افسوسناک پہلو ہے۔ کہ ہمارا مذہبی طبقہ آج مذہب کی روایتی تابعداری اور خدمت کو دین داری کا نام دے رہا ہے۔ انکے بوسیدہ نظام سے آج تنگ نظر اور روایتی ملاّ پیدا ہوسکتے ہیں ۔ لیکن پچھلی نصف صدی میں کوئی شبلی نعمانی، سلیمان ندوی، ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر،شیخ الہند یا پھر کوئی عبیداللہ سندھی پیدا نہ ہوسکا جو کہ علم و حکمت کے ساتھ عملی میدان میں ظلم و جبر کا راستہ روکنے کے لئے اور دین کی صحیح تشریح کرنے کے لئے میدان میں کھڑا نظر آئے۔کیا وجہ ہے کہ پگڑیوں کے طوفان ہیں مدارس کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے۔ قال اللہ اور قال ا لرسول کی آوازیں ہر کونے اور ہر طرف سے بلند ہو رہی ہیں۔ لیکن ہم اسلام کی انسان دوستی، رحمت و محبت کا عالمگیر پہلو،اور اسکے امن و آشی کا پیغام دینے میں ناکام رہے۔ کیا وجہ ہے۔ کہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مذہبی پیشواؤں کے ہوتے ہوئے معاشرے کے چند ناسور معاشرے کے سادہ لوح لوگوں کو دین کے نام پر وحشت و بربریت پر آمادہ کردیتے ہیں؟

تلخ حقیقت اور سیدھا سادہ جواب یہی ہے۔ کہ ہمارا مذہبی طبقہ معاشرے میں فرقہ پرستی ، مسلکی اختلافات ، مذاہب کی برتری اور مساجد و مدارس پرقبضے کی جنگ لڑتا رہا۔ایک دوسرے کو مذہبی اعتبار سے کمزور اور غلط ثابت کرنے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کرتا رہا۔ لیکن اپنے عمل و کردار سے معاشرے کو اسلام کا صحیح چہرہ اور امن و آشتی پر مبنی منشور و پروگرام سمجھانے اور سکھلانے میں ناکام رہا ہے۔ اور کچھ تو وہ ہیں کہ نہایت دیدہ دلیری سے ان اختلافات اور مذہبی بنیادوں کو اپنی سدا بہار تجارت کا مرکز بنا کر اپنی مسند پر بڑی سفاکی سے براجمان ہیں۔ جہان تک ہماری سیاسی حکومتوں کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جمھوریت کی نام نہاد مالا کو جھپتے ہوئے ہمارے حکمرانوں کی پہلی اورآخری منزل اقتدارکا حصول اورپھر اس پر عمر بھر براجمان ہونا ہے۔ وطن پرستی، ملک و قوم کے مفاد اور ملک دشمنوں کے خلاف عملی صف آرائی شاید انکے کاروباری ذہن میں ایک پاگل پن سے زیادہ کچھ نہیں۔

اور میری یہ رائے وزیرِ اعظم کی دہشت گردی کے خلاف سکاری بیانات اور اسکے وزراء کی اپنی فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے بیانات کے باوجود ہے۔ کیونکہ اس ناسور کو ختم کرنے کے لئے جہاں دفاعی اداروں کے جوان اپنی جانوں پر کھیل رہے ہیں۔ وہاں اس کی تخم ریزی اور معاشرے میں دائمی صدّباب کے لئے حکومت وقت کو جن اقدامات کی ضرورت ہے عملی طور ہر ہمیں ان کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا۔

چینی زبان کی ترویج تو ہو سکتی ہے ۔ لیکن ہمای نئی نسل کو اسلام کا عالمگیر انسان دوستی کا فلسفہ۔ امن و محبت پر مبنی پیغام اور اسکے دینِ رحمت ہونے کا پہلو پڑھانے کے لئے شاید ملک کے تعلیمی نظام میں جگہ نہیں۔ اپنی عیاشیوں اور دنیا پرستی میں وہ قوم کو راہِ راست پر لانے کی فکری اور نظریاتی ذمہ داری شاید بھول چکے ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے طویل جلا وطنی کے بعد ۱۹۳۹ میں اپنے تاریخی خطاب میں اس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ یہ گھرانے جو تم نے بنا رکھے ہیں اور انھیں تم فلک الافلاک سے بھی بلند سمجھتے ہو۔یہ مرورِ زمانہ کے ہاتھ سے بچ نہیں سکتے۔تمہارا سماج تمہارے افکار،تمہاری سیاست اور تمہاری معاشرت سب کھوکھلی ہو چکی ہیں۔تم اسے اسلامی تمدن کہتے ہو لیکن اس تمدن میں اسلام کا کہیں شایئبہ تک نہیں۔تم مذہب کا نام لیتے ہو، لیکن یہ مذہب صرف تمہاری ہٹ دھرمی کا نام ہے۔مسلمان بنتے ہو تو اسلام کو سمجھو۔جسے تم اسلام کہتے ہویہ تو کفر سے بھی بد تر ہے۔تمہارے امیر جاہ پرست ہیں۔ حکمران شہوات میں پڑے ہیں۔اور غریب طبقے توہمات کا شکار ہو رہے ہیں۔بدلو ورنہ تمہارا نشان بھی نہ چھوڑا جائیگا۔سنبھلو ورنہ مٹادئے جاؤگے۔

لہذا آپریشن ردُّ ا لفساد کا شروع ہونا اور ملک دشمنوں کی صفائی کا عزم لے کر فوجی اداروں کا دہشت گردوں کے خلاف صف آراء ہونا اور سیاسی اور مذہبی طبقے کا جیسے تیسے بھی انکے شانہ بشانہ بیانات کی حدتک کھڑے ہونا شاید اس ناسور کو ختم کرنے کے لئے کافی نہیں ہوگا۔ سفاکیت اور وحشت و بربریت کی اس سوچ اور اور اس کے آلہ کاروں سے معاشرے کو دائمی پاک کرنے کے لئے ہماری فوج کے ساتھ حکومت اور مذہبی طبقے کو خدا پرستی۔۔۔ انسان دوستی اور ۔۔۔ معاشی مساوات کے عظیم فلسفے پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہونا ہوگا ورنہ ہم جسموں کا گند صاف کرتے رہیں گے لیکن ذہنوں کی سفاکیت اس ناسورکی ہمارے معاشرے میں تخم ریزی کرتا رہے گا۔ اور ہم شاید عمر بھر اپنے ہی معاشرے میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف صف آراء ہوکر لڑتے رہیں گے۔(جاری ہے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے