صدرِآزادکشمیرکاڈھیلااسکرپٹ

گزشتہ ہفتے صدر آزادکشمیر سردار مسعود خان نے اہل قلم سے گفتگو کی اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کی جانے والی اپنی کاوشوں سے آگاہ کیا۔ دوران گفتگو انہوں نے مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری کی سرد مہری پر کھل کر بات کی اور اپنی عدم اطمینانی کا بھی اظہار کیا۔

راقم نے اس عدم اطمینانی اور عالمی برادری کی سرد مہری کی وجہ جاننے کے لیے سوال کیا کہ یورپین ممالک کے لوگ کیوں آپ کی باتوں پر توجہ نہیں دیتے؟ کیا پالیسی میں جھول ہے، یا جذبوں میں کھوٹ؟ تو صدر آزادکشمیر نے اس کا ڈپلومیٹک جواب دیا کہ عالمی برداری کے اپنے مفادات ہیں اور ہندوستان ایک بڑی منڈی ہے۔ اس لیے دنیا بھارت کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی نہیں چاہتی۔

اگر اس جواب کو مبنی بر حقائق تسلیم کرلیا جائے تو پھر ہمیں اس کا متبادل ڈھونڈنا پڑے گا، کیوں کہ اقوام متحدہ جس کی منظور کردہ قراردادوں کا ورد ہمارے سیاست دان تواتر سے کررہے ہیں وہ بھی یورپین ممالک کی منشاءکے بغیر کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گی۔ گویا ہم عالمی مفادات کے تابع ہو کر اپنے وطن کی آزادی کی تحریک کو چھوڑ دیں اور بھارتی جبر کو تسلیم کرلیں کہ یورپین اور دیگر اقوام ہماری پشت بانی اور حق کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ۔

جناب صدر کی خدمت میں عر ض ہے کہ آپ کا تجزیہ جزوی طورپر تو درست ہے مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ اور آپ کے سرپرست مسئلہ کشمیر کو آزادی کی تحریک کی بجائے علاقائی تنازعے کے طور پر عالمی برداری کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ عالمی برداری کو نہ تو آپ کے علاقائی تنازعے سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی انہیں آپ کے مذہب کے تحفظ میں دلچسپی ہے۔

جناب صدر، کیا یہ دلیل عالمی برادری کو آپ کے حق میں قائل کرسکتی ہے کہ کشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور مذہبی رشتے کی وجہ سے وہ اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کرنا چاہتے ہیں؟ معذرت کے ساتھ یہ بڑی لغو اور بھونڈی دلیل ہے ۔کیا اس حقیقت سے کوئی انکار کرسکتا ہے کہ عالمی برادری(غیر مسلم دنیا) اسلام کی ازل سے دشمن اور مخالف ہے اور کوئی بھی غیر مسلم ملک اسلام کے نام پر کسی مسلم ملک کی حمایت کرسکتا ہے؟قطعی نہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ”کرم فرما“ اس دلیل کو ہتھیار بناتے ہیں اور عالمی برادری ہماری حمایت کی بجائے بھارت کی طرف دار بن جاتی ہے کہ وہ پاکستان جیسے ملک جو ایٹمی طاقت ہے کو مزید مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادانہیں کر سکتی ۔

کشمیریوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ جب 1947میں انگریز کی حکومت کے خاتمے کے بعد برصغیر کی طرح ریاست جموں و کشمیر بھی غیر ملکی استعمار سے آزاد ہو گئی تو ہمارے ”نادان دوستوں“کو ہماری آزادی اچھی نہیں لگی اور انہوں نے ”جہاد“ کے ذریعے پوری ریاست جموں وکشمیرکو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا اور اہل ریاست ایک طرف تو بھارتی غاصبانہ ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں تو دوسری طرف ان کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار جا ری ہے اور پورے خطے کے لوگ کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

راقم نے جناب صدر آزاد کشمیر سے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ کشمیر کی آزادی کے لیے آپ عالمی برادری کی رائے اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے کیا تجاویز پیش کر رہے ہیں؟ یعنی وہ کون سی نئی اور موثر تجویز ہے جس کی بدولت وہ آپ کی طرف متوجہ ہوں۔ جواب میں صدر آزاد کشمیر نے وہی جملہ استعمال کیا جو کثرت استعمال سے لیر لیر ہو چکا ہے کہ ”اقوام متحدہ کی قراردادیں۔”

جناب گستاخی معاف! اگر یہ قراردادیں قابل عمل ہیں تو آپ اپنے کرم فرماﺅں سے کیوں نہیں کہتے کہ وہ پہلے خود ان پر عمل کو یقینی بنانے کے لیے قدم آگے بڑھائیں۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کہتی ہے پاکستان کشمیر سے اپنے تمام مسلح دستے نکالے گا اور بھارت فوج کا بڑا حصہ، یعنی بھارت کو اُنچاس فیصد فوج رکھنے کا حق دیا گیا ہے تو بتائیے کہ یہ قرارداد کس فریق کے لیے زیادہ قابل قبول اور کس کے لیے مہلک ہے۔ اگر اقوام متحدہ کی قراردادیں قابل عمل ہوتیں تو آج تک ان پر عمل درآمد نہ ہو گیا ہوتا؟

جناب صدر آزاد کشمیر! اہل کشمیر آپ کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں جو صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ آپ لکھے ہوئے اسکرپٹ کو منہ زبانی یاد کر کے سنانے کی بجائے عصری حالات و واقعات کے مطابق راستے کا تعین کریں۔ آپ کے قائد اور وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے دو سال قبل ریاست سے فوجیں نکالنے کا اعلان کیا تھا، آپ ان کے اسی بیان کو اپنی دلیل بنا کر عالمی برادری کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں اور بھارت کو ہٹ دھرم اور ضدی ثابت کیا جا سکتاہے ۔اس کے علاوہ تحریری عبارت اور مضمون کے ساتھ ساتھ غور و فکر بھی اس قضیے کے حل کے راستے کھول سکتا ہے۔

کیا آپ نے بحیثیت صدر آزاد کشمیر اور ریاست کا شہری ہونے کے ناتے کبھی پرویز مشرف کی تجاویز کو دیکھا ، پڑھا ، جانچا اور پرکھا؟ اگر نہیں تو اب بھی وقت ہے، کہ ان تجاویز پر غور کیجیے،پاکستان مسلم لیگ کے رہنما تو پارٹی لائن بولتے ہوئے یہی کہتے ہیں کہ پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچایا ، مگر سچ کچھ اور ہے ۔اگر آپ وزیراعظم پاکستان کااحسان چکانا چاہتے ہیں تو پھر تحریری سلیبس کو مزید ازبر کریں اور اگر آپ اپنے دور صدارت کو یاد گار اور خود کو اس عہدے کا اہل ثابت کرنے کے حق میں ہیں تو پھر تحریری سلیبس کے ساتھ ساتھ غور و فکر بھی کیجیے اور معاون کتب کا بھی مطالعہ کریں۔

گلگت ، بلتستان کو صوبائی حیثیت دینے کے سوال پر آپ کا جواب صدر آزاد کشمیر کی بجائے اسلام آباد سیکرٹریٹ کی کسی کرسی پر بیٹھے ہوئے ترجمان کا تھا جو اس کام کے عوض تنخواہ وصول کرتا ہے۔ جناب صدر! اب آپ گریڈ 22کے آفیسر نہیں بلکہ صدر آزاد کشمیر ہیں اور صدر آزاد کشمیر کے طور پر وہ کہیں جو اس منصب کا تقاضا ہے۔

آپ سے قبل بھی اسلام آباد سے راتوں رات ایک صاحب وردی اتار کر مظفرآباد پہنچے اور صدر آزاد کشمیر بن گئے ، اب آزاد کشمیر کے سیاسی و سماجی حلقوں میں اُن کا کہیں کوئی ذکر نہیں، حالاں کہ بعض احباب کہتے ہیں کہ انہیں بھی مسئلہ کشمیر پر لکھا گیا مضمون پوری طرح ازبر ہے جو وہ بڑی روانی اور اعتماد سے سناتے ہیں اور حقائق سے بے خبر دماغوں کو متاثر بھی کر لیتے ہیں، مگر کیا کیجیے کہ اس مضمون نویسی و مضمون خوانی سے نہ تو اہل کشمیر کے دکھوں کا مداوہ ہوا اور نہ ہی مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف کوئی پیش رفت ہو سکی، کیوں کہ دوسروں کے لکھے اسکرپٹ پر تمثیلی مکالمے تو بولے جا سکتے ہیں مگر آزادی کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا جا سکتا ۔آزادی کی منزل کو پانے کے لیے بنے بنائے راستے کا انتخاب نہیں بلکہ نیا راستہ اپنے ہاتھوں سے ہموار کرنا پڑتا ہے۔

جناب صدر! اللہ نے آپ کو بطور بیوروکریٹ بلند مقام عطا کیا اور سفارت کار تک پہنچایا ۔اس کے بعد آزاد کشمیر کے صدر کے منصب پر بٹھایا ، مگردوام نہ تو سفارت کاری کو حاصل ہے اور نہ صدارت کا منصب دائمی ، صرف جرات مندانہ کردار، جذبہءحب الوطنی اور نیک نیتی ہی کی وجہ سے آپ اپنا نام زندہ رکھ سکتے ہیں اور نام زندہ رکھنے کے لیے کچھ مشکل گھاٹیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ایک اہل دل اور صاحب نظر نے کہا تھا کہ

اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا

تو جناب صدر! حیات جاوداں کے لیے زہر کا پیالہ پینا پڑتا ہے ور نہ سقراط سے بھی بڑے ،بڑے دماغ گم نام مرجاتے ہیں،

نہ گور سکندر ، نہ قبر دارا!!!
مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے