پھٹیچر سے جاوید لطیف تک

پھٹیچر ، ریلو کٹا اور فوکر گالی نہ سہی ۔۔کسی کی اہلیت پر ریمارکس ہیں۔ مطلب یہ بتایا جارہاہے کہ جو کرکٹ میں زیادہ مہارت نہیں رکھتے۔۔ اپنے ممالک کی قومی کرکٹ ٹیموں کاحصہ نہیں بنے ۔۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں کوئی مقام نہیں رکھتے ۔۔ یعنی آپ اس کی جو مرضی وضاحت کردیں وہ نا غیر شائستہ ہے نہ غیر روائتی الفاظ ہیں۔۔ ہمارے معاشرے ، کھیلوں کے میدانوں ، قہوہ خانوں کی محافل ، یا دوستوں میں اکثر ایسے الفاظ استعمال ہوتے رہتے ہیں۔۔ اگر کرکٹ کے کھلاڑیوں کے بارے میں ایسا کچھ کہا جائے تو یہ گالی نہیں ۔۔ ۔ گیم سے وابستہ اصطلاح ہی مان لیتے ہیں۔۔۔ لیکن یہاں معاملا مختلف ہے صاحب۔۔۔ دیکھنا یہ ہے کہ کہنے والا کون ہے ؟ اور کہہ کس کو رہاہے ؟
بنیادی بات یہ ہے کہ غیر ملکی کھلاڑی مہارت اور اہلیت کے اس درجہ سے بھی کم تھے جو عمران خان نے بیان کی ہے اس کے باوجود ہمیں یہ یاد رکھنا چایئے کہ جب ہمارے ملک میں کوئی کرکٹ کھیلنے تو کجا۔۔پاکستان آنے والوں کو بھی بے وقوف سمجھتا ہو ۔۔ ایسے میں اگر کوئی کھلاڑی پاکستان آ ئے ہیں تو وہ پاکستان کی عذت کیلئے آئے ہیں۔۔ ہمارے اس موقف پر مہر تصدیق ثبت کرنے آئے ہیں کہ ہم مشکل حالات میں بھی چیلنجز سے مقابلہ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔۔ اور اگر سکیورٹی کے مسائل درپیش ہیں تو ہم اپنے مہمانوں کیلئے سربراہ مملکت ایسا سکیورٹی حصار بنا کر میدانوں کو کھیلوں کیلئے محفوظ بنا سکتے ہیں۔۔
عمران خان اس ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔رکن قومی اسمبلی ہیں اور پاکستان کی یوتھ کی ایک بڑی تعداد ان کی تقلید کرتی ہے ۔۔ ان حوالوں سے دیکھا جائے تو عمران خان پر اتنی ہی بڑی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ غیر ملکی کھلاڑی پاکستان کے مہمان اور خیر خواہ ہیں نجم سیٹھی یا نواز شریف کے نہیں۔۔۔ خان صاحب تنقید کرتے وقت ، مختلف موضوعات پر بولتے ۔۔ الفاظ کے چناو میں احتیاط نہیں برتتے ۔۔ جس کا خم یازہ انھیں اکثر مخالفین کی تنقیدکی صورت میں بھگتنا پڑ تا ہے۔۔غیر ملکی کھلاڑیوں کو صرف اس لئے تنقید کا نشانہ بنانا کہ وہ نجم سیٹھی کے پلان کا حصہ تھے مناسب نہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنماوں اور کارکنوں کو یہ بات سمجھنا چایئے کہ عمران خان بھی انسان ہیں اور دوسروں کی طرح غلطی بھی کر سکتے ہیں۔۔ ان کا موقف غلط بھی ہوسکتاہے۔۔ اس لئے دانشمندی کا تقاضایہ ہے کہ اگر عمران خان نے پاکستان کے غیر ملکی مہمانوں کیلئے توہین آمیزالفاظ استعمال کئے۔۔بادل ناخواستہ کہا ہوتا تو اس کی مزید تشریح نہ کرتے ۔۔ایسے موقع پر پی ٹی آئی رہنماو ں اور کارکنوں کو عمران خان کے الفاظ کی حمایت یا وضاحت نہیں کرنی چایئے۔۔ بڑی جمہوری جماعت ہونے کے دعویداروں کو عمران خان کو الطاف حسین نہیں بنانا چایئے۔۔ جو لند ن سے بیان دے کر پوری پارٹی کو امتحان میں ڈال دیتے تھے۔
اختلاف رائے سے عمران خان کو اپنے بے موقع اور بغیر تولے بغیر بولے گے الفاظ کو قابو کرنے اور برمحل گفتگو کرنے کا روڈ میپ ملے گا۔۔انھیں پتہ چلے گا کہ سیاستدان بعض موقعوں پر ذاتی رائے رکھنے کے باوجود بھی ملکی مفاد میں چپ رہ جاتے ہیں۔۔ کارکنوں کو امتحان میں نہیں ڈالتے۔۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنماو کارکن اگرروائتی سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کی طرح قائد کے منہ سے نکلی ہر بات کی تقلید اور وکالت شروع کردیں گے تو ان کا سیاسی قد کاٹھ نہیں بڑھے گا۔۔ یہ بھی سچ ہے کہ عمران خان میں اتنی برداشت ہے کہ اسے ہم نے کارکنوں کی براہ راست تنقید کا نشانہ بنتے ہوئے اور عمران خان کو وضاحتیں کرتاہوا دیکھا ہے۔۔

پھٹیچروالی فٹیج لیک کرنے والی رپورٹر کے ساتھ جوشیلے کارکنوں کی طرف سے طوفان بد تمیزی کے بعداسے بنی گالہ بلا کر معاملا رفع دفع کرنا اچھی روایت ہے۔۔ مگر یہ مشق دہرائی نہیں جانی چایئے۔۔پی ٹی آئی کے قائد تو لوگوں کو جمہوریت اور جمہوری اقدار کا درس دیتے ہیں۔۔ ایسے میں کارکنوں کو بھی یہ باور کرائیں کہ مثبت اور تعمیری تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔۔۔ عمران خان نے خواہ جس طرح بھی کہا ۔۔ جو بھی مطلب نکلتاہے اس کا پاکستان کے اندر بھی اور باہر بھی منفی پیغام گیاہے۔۔ اور خدانخوانستہ یہ کوئی ایسی غلطی بھی نہیں کہ جس کی تلافی نہ ہوسکے۔۔ اس کی تلافی یہ ہے کہ آئندہ ایسے ملکی مفاد کے معاملات پر بولتے ہوئے ذمہ دارانہ رویہ اپنایا جائے۔

سب غیر ملکی کھلاڑی پی ایس ایل کا فائنل کھیلنے پاکستان آئے ہمارے لئے یہ سب ہیرو ہیں۔۔ وہ کرکٹ بورڈ کے کہنے پر آئے۔۔ نجم سیٹھی کی دعوت پر کھیلے ۔۔۔ شاہد آفریدی یا جاوید آفریدی کی کوششوں سے لاہور کارخ کیا۔۔سمی کی طرح کوئٹہ کے وہ پلیئرز بھی پاکستان کی شان بڑھانے کا سبب بنے ہیں ۔۔دشمن اندرونی تھے یا بیرونی سب نے پورا زور لگایا تھا کہ پاکستان میں فائنل نہ ہو۔۔ لاہور میں یکے بعد دیگرے دہشتگردی اور ملک بھر میں دہشتگردی کی ایک نئی لہر نے سب کو خوفذدہ کر دیا تھا۔۔ یقینا مجھ سمیت بہت سے پاکستانی جو لاہور میں پی ایس ایل کا فائنل دیکھنے کے متمنی تھے وہ سب اندر سے خوفذدہ بھی تھے ۔
کپتان نے بھی یقینا اس لئے لاہور میں فائنل کرانے کے فیصلے کو پاگل پن کہا کہ خدا نخواستہ کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو جاتا تو نہ صرف ملک پر آنچ آ تی بلکہ پاکستان میں کرکٹ کے دروازے کھلنے کی امید ناامید ی میں بدل جاتی۔۔۔ان کا پہلا ردعمل تو قابل فہم تھا۔۔ جس میں تنقید کے ساتھ ساتھ بحثیت پاکستانی اک فکر بھی دامن گیر تھی۔۔پھر اس کے بعد جوں جوں میڈیا والے خان صاحب کو کریدتے گے۔ ۔ سوالات کے باؤنسر کراتے رہے ۔۔ خان صاحب ان کو چھوڑنے کی بجائے الٹی سیدھی شارٹس کھیلتے چلے گے۔۔لیکن اس ساری بحث میں ایک حوصلہ افزا ء پیش رفت یہ بھی تھی کہ پی ٹی آئی کے بڑی تعداد میں لوگوں نے عمران خان کے بیان کی حمایت نہیں کی۔۔ نہ بیان کا دفاع کیا۔

دوسری طرف مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف کے مراد سعید سے لڑائی میں خرافات نے متدکرہ بالا بحث کو پیچھے چھوڑ دیاہے۔ ۔اس پر جہاں خود جاوید لطیف بھی مراد سعید کی بہنوں کی بات کرکے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں وہاں کئی لیگی بھی شرمندہ شرمندہ ہیں۔۔ مگر کچھ بے شرم جاوید لطیف کی گالی کا بھی دفاع کررہے ہیں۔۔ قومی اسمبلی میں جاوید لطیف کے خلاف تحریک بھی آرہی ہے۔۔ نیشنل پریس کلب کے سامنے کل پی ٹی آئی کی خواتین احتجاج بھی کررہی ہیں۔۔۔ لیکن میاں نواز شریف نے ابھی تک ان سے بازپرس نہیں کی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے