ہمارے مسائل اور ان کا حل

انسان کو اللہ تعالی نے عقل سلیم عطاء کی ہے، تاکہ و ہ ذہن کا استعمال کرکے اپنے تصفیہ طلب امورا ور مسائل کو اپنے وسائل کےمطابق حل کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہوئے خودکوکامیاب کریں۔پاکستان کے معرض موجود میں آئے ہوئے تقریباً69 برس بیت چکے ہیں لیکن مسائل ہر گزرتے دن کیساتھ بڑھتے رہے ہیں۔ ہمارے حکمران اورحکومتیں آئے دن اہم ایشوزکوچھوڑ کر ”نان ایشوز“ کی سیاست پر عوام کو ٹرخاتی ہیں اور اصل مسئلے کو دبانے کی کوشش کرتے ہوئے اس سے پہلو تہی کرتی ہیں۔

ریاستیں اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ اس میں عوام کے مسائل کو حل کرنے کے منصوبے اور تدابیر اختیار کئے جائیں اور اس طرح مسائل کا مناسب حل تلاش کرلیا جائے۔ تاکہ عوام کو آسانیاں اور ان کی خواہشات کوبہم پہنچانے کا عمل شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔ مرض کے تشخیص کے لئے تشخیصی عمل کے علاوہ ڈاکٹر ،علاج معالجہ اور دوا ئی تجویز کرتے ہیں۔ شخیص کے بغیر دوائی جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

مملکت پاکستان میں یوں تو سب مسئلوں پر دانشور حضرات لب کشائی کرتے ہیں اور کسی حد تک اپنی تجاویز کو عملی شکل دینے کی سعی اور کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ کوشیشیں آٹے میں نمک کے برابرکے مصداق ہوتے ہوئے اکثر نامکمل ہوتی ہیں اوران تجاویز سے بادی النظر میں کوئی بنیادی تبدیلی اور اصلاحات لاناجوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔

آج کی نشست میں ہمیں دیکھنا ہےکہ بنیادی مسائل کون سے ہے؟کون اس کے پیداکرنے کا ذمہ دار ہے؟اس کے حل کے لئے کیا ٹھوس اقدام ضروری ہے؟ میرے خیال کے مطابق پاکستان میں انصاف اور ترتیب نام کی کوئی شے وجود نہیں رکھتی ۔اگر بنیادی ڈھانچہ میں انصاف کا توازن ٹھیک کیا گیا تو باقی مسائل با آسانی حل ہو سکتے ہیں۔قانون کی حکمرانی اور آئین کے بالادستی سے زندگی کے ہر شعبہ ہائے میں انقلابی اقدامات ممکن ہوسکتے ہیں۔ یوں تو لاتعداد مسائل ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انصاف او رترتیب کے علاوہ صحت، تعلیم،اور ہوشربا گرانی نے عوام الناس کی کمر توڑ کر رکھی ہیں۔

اس کے علاوہ دہشت گردی، فرقہ واریت، کرپشن، لوٹ مار، ظلم و جبر، محکمانہ غفلت، خود کش دھماکے، شدت پسندی اور بنیاد پرستی جیسی برائیاں نظام مملکت کو کھوکھلا کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ پاکستان میں قوانین کی بھر مار ہے اور یہ کسی حد تک صحیح بھی ہے کہ ہماری قوانین تقریباً اسلامی یعنی قران و حدیث کے مطابق بنائے گئے ہے۔مطلب صحیح ہے، لیکن مسئلہ ان قوانین کے لاگو کرنے اور نافذ العمل بنانے کا ہے۔یہ مسائل اس وقت ختم ہوسکتے ہیں جب آپ ان قوانین کواپنے عوام اور خاص کر محکمہ جاتی افسران کو سمجھائیں او ر ان کو پرنٹ،الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ تعلیمی پالیسی اوداخلہ ر خارجہ پالیسی کا حصہ اور محور بنائیں۔ عوام کو حساس معاملات اور قوانین پر ٹریننگ دینے کے عمل سے انصاف اور ترتیب کا معاملہ حل کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں تقریباً ہر محکمے اورہر جگہ تصفیہ طلب امور ہر وقت حکومت اور اپوزیشن کیساتھ چھیڑخانی کرتے ہیں۔ایک بھی ایسا ادارہ مجھے معلوم نہیں، جس میں کرپشن،ریڈ ٹیپ ازم اقرباپروری اور میرٹ کا قتل عام نہیں ہوتا ہو۔ سرکاری عمال فرعون بنے پھرتے ہیں اور غریب عوام کی روزی روٹی پر لات مارتے رہتے ہیں۔ اپنی قانونی ڈیوٹی میں غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے محکمانہ و مجرمانہ غفلت کے قصوروار ٹھرتے ہیں۔سینٹ اور پارلیمنٹ، ہسپتال، اعلی وزریں عدالتیں، محکمہ تعلیم،سی این ڈبلیو،ٹورازم ڈیپارٹمنٹ، لیبرڈیپارٹمنٹ، یونیورسٹی،کالجز،سکولز، ٹی ایم ایز، سیکورٹی ایجنسیوں وغیرہ کے ناقص حکمت عملی و انتطامات ہر طرف مملکت کے شان میں گستاخی کرنے کی مترادف ہیں۔

ایسا لگتا ہیں جیسے ہم کسی جنگل میں آگئے ہوں” سنا ہے جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے “لیکن ارض پاک میں قانون نام کی کوئی شئے موجود نہیں اور اگر ہے، بھی تو غریب اور بے بس عوام کے لئےہیں۔ ہر کوئی کہتا ہو ا ملتا ہے کہ بھائی پاکستان ہے ،یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں۔یہاں طاقتور کا قانون ہے۔عام شہری لوگ ہی قانون کے پاسداری کرتے نظر آتے ہیں۔کیونکہ قانون تو اُن لوگوں کیلئے بنا ہے۔دین اورشریعت کے ماننے والے بھی زیادہ تر غریب عوام ہی ہیں۔ سرمایہ داراور جاگیردار نے اپنے لئے ڈیڑھ گز کی مسجد بنا لی ہے، لیکن گستاخی کہ معاف اس میں حاضری دینےکبھی کبھار ہی جاتا ہیں۔مسجد جس کو کمیونٹی سنٹر ہونا چاہئے تھا،جہاں پر عام لوگوں کے مسئلوں کا حل دیا جانا تھا، وہاں پر گداگروں،فقیروں اور مسکینوں کی لائینیں کھڑی نظر آتی ہیں۔بازاروں،مارکیٹوں،فٹ پاتھوں اورعام گلی کوچوں میں بھی گداگر اپنے پیٹ بھرنے اور بقاء کی جنگ لڑنے کے لئے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔

مملکت خداداد میں یوں توڈھیر سارے اِدارے موجود ہیں۔الغرض،یہاں پر ہر شعبہ ہائے زندگی کیلئے اِدارے موجود ہیں لیکن ان میں صرف فائلیں اور سینئرز آفیسرز کی ملی آؤ بھگت ہی کی جاتی ہیں۔ہر ادارہ اور افیسر ز نوکر پیشہ کم اورسیاسی زیادہ ہوتے ہیں۔ کوئی ایک محکمہ اپنے کام میں سنجیدہ نہیں۔ہر محکمہ دوسرے محکمے کے کاموں میں ٹانگ اڑھاتا ہیں۔ بلکہ زیادہ تر دوسری اداروں کے کام نمٹانے میں لگے ہوا ہیں۔ انتظامیہ کا کام پولیس اور پولیس کا کام فوج اور فوج کا کا م رینجرز و ایف سی والےکرتے نظر آتے ہیں۔

عدالت اور حکومتیں ایک دوسرے کے دائرہ اختیار کے برخلاف کام کرتی ہیں۔ عدالتیں اگر کسی مقدمہ میں حکم و فیصلہ سنا دیں، تو حکومت اس پر عمل درآمد کرنے میں روڑے اٹکاتی ہیں اور اس پرشاذ و نادر ہی عمل کیا جاتا ہیں۔ عدالتیں جن کو پتاہوتا ہے کہ فیصلے پر عمل ہونا اور نہ ہونا برابر ہے پھر بھی وہ فیصلے سناتی جاتی ہیں۔ اس طرح صوبائی حکومتیں وفاقی حکومت کو کوستی ہیں اور وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کو۔ ایک حکومت کہتی یہ ہمارا کام نہیں تو دوسرا کہتی ہیں ہمارا کام نہیں۔ “اس کا مطلب تویہ ہوا کہ کسی کو اپنا کام اور دائرہ کار معلوم ہی نہیں۔ یہ تو ایسی مثال ہوگئی کہ وکیل اور جج کو قانون کا پتا نہیں، ڈا کٹراور فارماسسٹ کو علاج کا پتا نہیں۔ آرکیٹیکٹ اور انجنیئرکو نقشے اور تعمیر کا پتہ نہیں اور بیوروکریسی افیسران کو کو قانون اور فائلوں کا پتہ نہیں۔ اس طرح قانون ساز ممبران کو قانون سازی کا پتہ نہیں اور عدالتوں کو اس کی تشریح کا پتہ نہیں۔

تفویض شدہ قانون اور طاقت میں صوبائی ،ضلعی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے کا منھ تکتی ہیں۔ سی این ڈبلیو، محکمہ سوئی گیس، محکمہ پٹرولیم اور واپڈاعوام کی ضروریات اور حکومتی نا اہلی کے سبب اپنے دائرہ اختیار سے زیادہ طا قتور اور خون ریز ہیں۔توانائی کی ضروریات الگ طور پرسراٹھائی ہوئی ہیں۔پٹرول اورگیس کی کمی کا سامنا ہے۔پٹرول اور تیل کی قیمیتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ دوائی اور گولیوں نے غریب کے کاندھے کو جھکا کر رکھ دیا ہیں۔ ملک قرضوں کی گھن چکروں میں پھنسا ہوا ہیں۔خدارا یہ مملکت اب اور قرض لینے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔بنیا بنکوں نے لوگوں کو قرض در قرض اور سود در سود کی چنگل میں بری طرح جھکڑ لیا ہے کہ اب خدا ہی ان لوگوں کو اس شکنجے سے آزاد کرے گا۔

غریب جب صبح اٹھتا ہیں تو گھرداری کیلئے سودا سلف اور بچوں کے سکول کے پیسے پورے نہیں کرسکتا۔ کیونکہ پچھلے دن کے اخراجات اور قرض دوکاندار کو دینا ہوتا ہے۔تو اس حال میں وہ اپنے بچوں کا خیال و تربیت کیسے کریں۔

یہی حال ہمارے پیارے ملک پاکستان کا ہے۔قرض اور سود اتنا لیا گیاہیں کہ ملک کا ہر شہری لاکھوں کا مقروض ہیں۔اورحکومت ہے کہ قرضے پر قرضے لئے جا رہے ہیں۔ بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ یہ ملک کیسے چل رہا ہے؟معیشت کے شعبے سے منسلک ماہرین حیران وپریشان ہیں ،لیکن آخر کارپکار اٹھتے ہے کہ یہ سب خدا تعالیٰ کے خصوصی رحمت اور تائید سے چل رہا ہیں۔ بعینہہ یہی حال عام عوام کا بھی ہے،اخراجات اور ترجیحات کی اتنی لمبی فہرست، اتنی کم امدنی اور اتنے زیادہ مسائل یعنی کم سے کم وسائل، لیکن پھربھی یہ کاروبار زندگی چل رہا ہے۔ میرے خیال سے کوئی غیبی قوت ہی اس نظام کو چلا رہی ہے۔یا شائدکسی شاطر و خونخوارقوت کے مفادات پورے ہورہے ہیں۔ٓآئے دن پانامہ گیٹ اور خود کش دھماکوں جیسے مسائل نے عوام کو نفسیاتی مریض بنا رکھا ہے۔ گران فروشی نے عوام الناس کا بھر کس نکال دیا ہے۔

قارئین کرام! ان سب مسائل کا کوئی تو حل بنتا ہے۔ہم کوشش کرتے ہے کہ سادہ الفاظ میں اس کا حل تجویز کرلیں۔

آئین اور قانون کے مطابق، تفویض شدہ قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر ایک ادارے کے آفیسران کی حساس ٹریننگ اور دائرہ اختیار کے مطابق اختیارات استعمال میں لانے چاہئیں۔قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے اصولوں پر کاربند رہنا چاہئے۔ہوشربا گرانی اور گران فروش کے سد باب کے لئے محکمانہ کوششیش کرنی چاہئیں۔ایک جیسی واضح صحت اور تعلیم کی دوٹوک پالیسی بنانے چاہئے۔ ترتیب اور ڈسپلن کو زندگی کے ہر شعبے پر لاگو کرنا چاہئے۔خارجہ اور داخلہ پالیسی کاتعین کیا جانا چاہئے۔ پارلیمنٹ اور عدالتوں کو با اختیار بنانا ہی جمہوریت کا مقصود و منتہاء ہوتا ہے۔اس لئے مقامی سطح پر بلدیاتی اداروں کو بھی با اختیار بنانا چاہئے۔مذہبی جنونیت اورفرقہ واریت کا سد باب کیا جانا چاہئےاور سب سے بڑھ کرانسانیت کی تعلیم دینی چاہئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے