ہم بھی ہنری فورڈ بن سکتے ہیں

خواب ۔۔۔خواب کون نہیں دیکھتا؟بینائی سے محروم افراد بھی خواب دیکھتے ہیں ہاں خوابوں کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے ، خواب ضرور دیکھنے چاہییں، ان کی تعبیر پانے کے لیئے ضروری ہے محنت، انتھک محنت، منزل کا تعین کر لیا جائے تو خوابوں کی تعبیر مل جایا کرتی ہے۔

جو انسان اپنی منزل کا تعین نہ کرے اور راستوں کی لمبائی،چوڑائی اور دل کشی میں‌کھو کر قدم اٹھانا شروع کر دے تو وہ جتنی تیزی سے چلتا ہے اتنا ہی منزل سے دورہوتا چلا جا تا ہے،ایسے انسان کے لیئے نجات سے زیادہ ہلاکت کی کئی صورتیں نکل کر سامنے آتی ہیں،منزل پر پہنچنے کے لیئے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، درست سمت میں سفرجاری بھی ہو مگر ایک لمحے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غلط سمت سفر ہو رہا ہے ،

ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے؟اس کی وجہ راستے میں کھڑے وہ لوگ ہوتے ہیں جو حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی کرتے ہیں مگر لوگوں کی باتوں سے بے نیاز ہو کر اپنا سفر جاری رکھنا چاہیئے۔

پاکستان کا خواب علامہ اقبال ؒ نے دیکھا ، حقیقی تعبیر میں ڈالنے کے لیے مسلمانان ہند محمد علی جناح کی قیادت میں متحد ہوگئے ، بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے پاکستان ایک منزل کا نام نہیں بلکہ ایک راستے کا نام تھا ،ہندوستان کے مسلمان اس کٹھن راستے کو طے کر کے اپنی منزل تک پہنچے ،لاالہ الااللہ کی نیت کر کے اپنی منزل کی طرف رواں ہوئے اور اسے حاصل کر لیا اگر کوئی عقل سے عاری یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد مسلمانوں نے کوئی ترقی نہیں کی تو یقیناًاسے یا تو حالات سے مکمل آگاہی نہیں یا پھر کسی اور وجہ سے حقائق پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔

تاریخ نے ہمیشہ انہی لوگوں کو یاد رکھا جنہوں نے ’’میں کچھ نہیں کرسکتا‘‘ کی زنجیریں توڑتے ہوئے سب کچھ ممکن بنایا ،حضرت اقبال نے اس لیے ایک شعر کہا تھا’’اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے‘‘ ہر انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ لوگ اسے اچھے الفاظ میں یاد رکھیں اگر آپ دنیا پر اپنے نقوش ثبت کرنا چاہتے ہیں تو پھر صرف سوچوں کے بھنور میں ہچکولے کھانے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے، بے مقصد بھٹکنے والوں کو منزل کبھی نصیب نہیں ہوتی ،منزل کا تعین کر کے ہی چلا جائے تو منزل پر پہنچا جاتا ہے۔

بڑے خواب بیان کرنے والے لوگ جوں ہی اپنے خوابوں کا ذکر کرتے ہیں تو اپنے چاروں طرف سے کاٹ دار جملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،دوست احباب کے پاس جب اس حقیقت کو دلیل کے ساتھ رد کرنے کا کوئی جواز نہ ہو تو یہ کہہ کر دل چھلنی کر دیا جاتا ہے کہ باتیں تو بہت کرتے ہو جب کچھ کریں گے تو دیکھ لیں گے اس حالت میں ،میں سوچتی ہوں ہم اگر چھوٹے سے آئیڈیاز پیش کرتے ہیں تو اس کی پاداش میں لوگوں کے مذاق کا نشانہ بنتے ہیں تو جنہوں نے ہوائی جہاز،انجن اور دوسری ایجادات کے آئیڈیاز پیش کیئے ہوں گے ان کا کیا حشر ہوا ہوگا، ان کے خوابوں کی تذلیل کا تصور ذہن میں آتے ہی جسم میں کپکپی طاری ہوجاتی ہے ،معاشرے میں انہیں بیوقوف ،شیخی باز اور نہ جانے کیسے کیسے القابات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا ،لیکن وقت نے ثابت کیا کہ کامیابی کا راز بڑے خواب دیکھنے میں ہی ہے ۔

کامیاب لوگوں کے پاس آئیڈیاز کے ساتھ ویژن بھی ہوتا ہے ، وہ اپنی منزل کو ذہن میں‌ رکھ کر سفر کرتے ہیں، ان کی نگاہ عقابی ہوتی ہے ، جس طرح عقاب بلندی سے ہی اپنے شکار پر نظر مرکوز رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور تب تک نظر نہیں ہٹاتا جب تک وہ اپنا شکارجھپٹ نہ لے ، اس طرح یہ لوگ بھی تب تک ڈٹے رہتے ہیں جب تک وہ اپنی منزل حاصل نہ کرلیں ، جس طرح عقاب تندی باد مخالف سے نہیں گبھراتا بلکہ اس کو اپنی طاقت بنا کر اپنی اڑان اونچی کرتا ہے ، اسی طرح یہ لوگ بھی اپنی منزل کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں،مزاحمتوں اور مخالفتوں کو اپنی کمزوری بنانے اپنی طاقت بنا کر منزل تک پہنچتے ہیں ،کامیاب لوگوں کے فیصلے دوسروں کی دماغی صلاحیتوں کی محتاجی نہیں ہوتے بلکہ اپنی ذات کے معاملے کو وہ خود ڈرائیو کرتے ہیں۔

دنیا میں جن لوگوں نے بڑے خواب دیکھے اور ان کی تعبیر مرضی اور منشا کے مطابق ڈالی، ان میں ایک امریکی صنعت کار ہنری فورڈ بھی ہیں ،جی ہاں فورڈ کاریں جو ہر سڑک پر دوڑتی نظر آتی ہیں ، ان کا مالک ہنری فورڈ . . . ، فورڈ کمپنی امریکہ کی دوسری اور دنیا کی پانچویں بڑی آٹو میکر کمپنی ہے ، 2009 میں اس کی آمدنی 3.118 ملین ڈالر تھی، جو اب پانچ سو ملین ڈالر میں تبدیل ہوگئی اس کمپنی کے ملازمین کی تعداد دو لاکھ بیس ہزار ہے جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ،

ہنری 1863ء میں پیدا ہوا اس کے والدین کسان تھے جب ہنری بڑا ہو ا تو سکول جانے لگا سکول سے واپسی پر مویشیوں کو چارہ ڈالتا ،کھیتوں کو پانی دیتا اور اس کا شمار مثالی طالبعلموں میں ہوتا تھا، ایک دن اس کا باپ شہر جانے لگا ہنری سے باپ سے ضد کی وہ بھی شہر جائے گا، باپ نہ مانا بالاآخر اس کی ضد کے آگے وہ ہار مان گئے،ہنری جب باپ کے ساتھ شہر پہنچا تو اس نے شہر میں گاڑیاں ، بلند وبالا عمارتیں دیکھیں ، یہی وہ وقت تھا جب ہنری نے اپنی آنکھوں میں خواب سجائے ، وہ واپس گاؤں آیا تو اپنے معمول کے کاموں کے ساتھ ساتھ اس کے دماغ میں اپنے خوابوں کی تعبیر کے منصوبے بھی بن رہے تھے ،سولہ سال کی عمر میں اس نے گاؤں چھوڑ دیا ، وہ شہر چلا گیا ، ایک موٹر مکینک کے ہاں کام سیکھنا شروع کر دیا، ہنری کام سیکھنے کے معاملے میں کبھی بھی عار محسوس نہ کرتا،سترہ سال کی عمر میں اس نے اسٹیم انجن آپریٹ کرنا سیکھ لیا۔

1892ء میں ہنری کی ملاقات تھامس ایڈیسن سے ہوئی ، یہ ملاقات انکی دوستی میں تبدیل ہوگئی، دونوں ایک دوسرے کے کام آتے رہے ،1903ء میں اس نے فورڈ کمپنی کی بنیاد رکھی ، جب اس نے موٹر کمپنی بنائی تو اس وقت ستاسی دوسری کار کمپنیاں امریکہ میں کام کر رہی تھی لیکن فورڈ کے ویژن نے سب کو مات دے دی ، فورڈ نے ہر قسم کے گاہکوں کو فوکس کیا، اس طرح اس کی پراڈکٹ کی مانگ بڑھتی گئی اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ فورڈ دنیا کی نامی آٹو میکر کمپنیوں میں سے ایک کمپنی بنی ۔

ہنری نے صرف ایک خواب دیکھا تھا ، وہ کسی سرمایہ دار کی اولاد نہ تھا ، اس کے وسائل بھی محدود تھے ، خواب کی تعبیر تک پہنچنے کا سفر کٹھن اور راستہ ناہموار تھا ،مگر ہنری نے اپنی محنت،کام سے لگن اور خود اعتمادی سے اپنے خواب کو تعبیر تک پہنچایا اور ایک پیغام دیا خواب بڑے سے بڑا بھی ہو اس کی تعبیر ممکن ہے اگر محنت اور لگن شعار بنایا جائے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے