’اب خون تجربہ گاہ میں تیار کیا جا سکے گا‘

سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انھوں نے تجربہ گاہ میں بڑے پیمانے پر خون کے سرخ خلیے تیار کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

اس طریقے سے بنائے جانے والے خون کو عطیہ کیا جا سکتا ہے۔

سرخ خلیے اب بھی تجربہ گاہ میں تیار کیے جا سکتے ہیں لیکن مسئلہ ان کی مقدار کا ہے۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف برسٹل اور قومی ادارۂ صحت این ایچ ایس کے سائنس دانوں نے ایک ایسا طریقہ وضع کیا ہے جس کی مدد سے غیرمحدود مقدار میں خون تیار کیا جا سکتا ہے۔

پرانی تکنیک کے تحت ایک خاص قسم کے سٹیم سیل حاصل کیے جاتے تھے جو سرخ خلیے بناتے ہیں اور پھر ان کی مدد سے تجربہ گاہ میں خون تیار کیا جاتا تھا۔

تاہم ہر سٹیم سیل صرف 50 ہزار سرخ خلیے بنانے کے بعد ٹھپ ہو جاتا تھا۔

خون کے صرف ایک ملی لیٹر میں 50 لاکھ کے قریب، جب کہ خون کی ایک تھیلی میں تقریباً دس کھرب سرخ خلیے ہوتے ہیں۔

اب برسٹل یونیورسٹی کی ٹیم نے سٹیم سیل کو ایک ایسے مرحلے میں استعمال کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جب وہ لامتناہی مقدار میں سرخ خلیے تیار کر سکتے ہیں۔

ایک تحقیق کار ڈاکٹر جان فرین نے کہا: ‘ہم نے ہسپتال میں استعمال کے لیے سرخ خلیے بنانے کا قابلِ عمل وضع کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

ہم نے اس کی مدد سے لیٹروں کے حساب سے خون تیار کیا ہے۔’

تاہم ابھی اس تحقیق میں بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔

سائنس دان خون تیار کر سکتے ہیں، تاہم اس ٹیکنالوجی کو صنعتی پیمانے پر نافذ کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

ایک اور تحقیق کار پروفیسر ڈیوڈ اینسٹی نے بتایا: ‘بایوانجینیئرنگ کا معاملہ ابھی حل طلب ہے۔

اتنے بڑے پیمانے پر خون تیار کرنا آسان نہیں، اور ہماری تحقیق کا اگلا مرحلہ پیداوار کو توسیع دینا ہے۔‘

ایک اور مسئلہ بڑے پیمانے پر تیار کردہ خون کی قیمت کا بھی ہے۔

اس ٹیکنالوجی کے فوائد ظاہر ہیں۔

بعض اوقات نایاب خون کا حصول ناممکن ہوتا ہے۔ پروفیسر اینسٹی کہتے ہیں: ‘اس ٹیکنالوجی کا پہلا استعمال نایاب اقسام کے خون پر ہو گا۔’

تجربہ گاہ میں تیار کردہ خون کے مریضوں پر ٹرائل اس سال کے آخر میں متوقع ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے