ایک جواں سال عالم دین کا سفر آخرت

حضرت مولانا محمد یونس جلالی ؒ ۱۸ مارچ بروزہفتہ دن دوبجے انتالیس سال کی عمر میں ڈائیلائسز کے دوران کلمہ طیبہ کا ور دکرتے ہوئے انتقال کرگئے ۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون

اللہ رب العزت نے مرحوم کو بہت سی قابل رشک خوبیوں سے نواز تھا۔ باعمل عالم دین ،قرآن کریم کے بہتر ین قاری ، خطابت میں طلاقت لسانی کے ساتھ ساتھ دردمندی ،دلسوزی اور اخلاص سے بات کرتے کہ ان کی بات دلوں میں اترتی چلی جاتی، طبیعت میں توا ضع و انکساری ، مزاج میں ملنساری تھی الغرض مولانا مرحوم بڑے ہی خلیق اور نرم خو انسان تھے۔ آپ الولد سرلابیہ کابہتر ین مصداق تھے ۔مولانا کے والد مرحوم اپنے وقت میں اپنے علاقہ کے سب سے زیادہ دانا ، متین، معاملہ فہم اور صلح جو انسان تھے۔ طاعات وعبادات بالخصوص قرآن کریم کی تلاوت میں اپنے دادا باباحبیب مرحوم کی جھلک تھے۔جن کا ایک سوبیس سال کی عمر میں رمضان المبارک کے روزے کی حالت میں انتقال ہوا۔

مولانا مرحوم انتقال سے تقریبا ایک سال قبل سے گردے کے عارضے میں اچانک مبتلا ہوئے اور پھر انہوں نے بیماری کے دوران جن مصائب ومشکلات کا سامنا کیا اور درد والم کو جس صبر وتحمل سے جھیلا یہ محض اللہ رب العزت کا کرم تھا۔ زندگی کے آخری دن تک پورے عالمانہ وقار اور حوصلہ کے ساتھ اپنے منصب پر قائم رہے یعنی ہفتہ کے روز انتقال ہوا جبکہ ایک روز قبل جمعتہ المبارک کا خطبہ اور نماز حسبِ معمول خود پڑھائی ( مولانا کے ہاں جمعہ پڑھنے لوگ دور دراز سے آتے تھے) مولانا مرحوم کی حالت اور جسمانی کیفیت کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید کے ساتھ مولانا مرحوم کی کرامت تھی۔
امام جلال الدین سیوطی ؒ کی کتاب شرح القبور میں ایک واقعہ مذکور ہے جو مولانا مرحوم کے حالات پرپوری طرح صادق آتا ہے اور تعزیت وتذکیر کے اعتبار سے مناسب ومفید بھی ہے۔

شرح القبور۱۴۳ ؁ ص میں شعب الایمان کے حوالہ سے ہے کہ جلیل القدر تابعی حضرت مطرف بن عبداللہ ؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک بار ایک قبرستان میں گیا۔ ایک قبر کے پاس ( چھوٹی سی مسجد جو قبرستان میں بنی ہوتی ہے) دورکعت نماز ہلکے طور سے پڑھ کر سوگیا، اس قبر کے مردے نے (عالم رؤیا میں)کہا کہ تم نے دورکعت نماز پڑھی اور دل میں خیال کیا کہ بہت مختصر اور ہلکی پڑھی ہے میں نے کہا ہاں! انہوں نے کہا تم لوگ عمل کرتے ہولیکن اسکی فضلیت نہیں جانتے ۔اور ہم لوگ دو رکعت پڑھ سکتے تو یہ نماز ہمارے حق میں تمام دنیا سے افضل اور بہتر ہوتی پھر میں نے پوچھا کہ اس قبر ستان میں کون لوگ ہیں کہا’’ کل مسلمان ہیں اور سب نیک کار ہیں‘‘۔ میں نے پوچھا’’ سب سے افضل کون ہے ؟‘‘ تو اس نے ایک قبر کی طرف اشارہ کیا ،میں نے اپنے دل میں کہا یا اللہ اس مرد ہ کو ظاہر فرماد یں تاکہ میں اس سے بات کروں ، اچانک قبر شق ہوئی اور ایک نوجوان نکلا میں نے پوچھا ’’تم ان سب میں افضل ہو؟‘‘کہا’’ہاں! یہ لوگ ایسا ہی کہتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا’’ کس عمل کی بدولت تم نے ایسا درجہ پایا؟ تمہاری عمر کم ہے، یہ گمان نہیں ہوتا کہ حج و عمرہ، جہاد اور دوسرے اعمال کے زیادہ کرنے سے تم کو یہ درجہ ملا ہوگا؟‘‘ اس نے جواب دیا’’ مجھ پر مصیبتیں بہت نازل ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے صبر کی توفیق عطا فرمائی جس کے سبب سے مجھ کو یہ مرتبہ ملا‘‘

امام سیوطی ؒ شرح القبور میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھاسے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو نیک بخت بناتا ہے تومرنے سے ایک سال پہلے ایک فرشتہ اس کے پاس بھیجتا ہے وہ اس کو درست کرتا ہے اور نیک عمل کی طرف خواہش دلاتا ہے۔یہاں تک کہ وہ نیک حالت میں مرتا ہے اور سب لوگ کہتے ہیں کہ یہ شخص نیک حالت میں مرا‘‘

اسی آئینہ میں مولانا مرحوم کو دیکھئے بالخصوص زندگی کا آخر ی سال عجیب نیکی اور رجوع الی اللہ کی کیفیت میں گزرا۔ یوں تو مولانا مرحوم سات سال کی عمرمیں مدرسہ میں آئے۔ زندگی کے آخر ی دن تک مسجدو مدرسہ کے ماحول میں ،علما طلباء کی محفل میں، دین پڑھنے پڑھانے میں مشغول رہے۔خاص طورپر عملی زندگی کے ۱۹ سال جو ’’روات‘‘ کے علاقہ میں گزارے ، قرب وجوار کے علماء کرام کو یک جان کیے رکھا، رسومات وبد عات کے پرآشوب ماحول میں توحید وسنت اور دین کی نشرواشاعت کا جس حکمت و بصیرت اور جہد مسلسل کے ساتھ کام کیا وہ بڑاہی قابل رشک اور قابل تحسین ہے۔ اللہ کریم قبول فرمائے۔

تقریبا ایک سال قبل اہل خانہ اور بہنوں کے ساتھ عمر ہ کی سعادت حاصل کرکے واپس آئے تو طبیعت میں بہت ہی رقت تھی اور عام گفتگو بھی بہت کم کرتے تھے۔کچھ عرصے بعدرمضان المبارک کے ابتدائی دنوں میں ایک دن مولانا سید عالم طاہر کا فون آیا کہ’’ میں مولانا محمد یونس جلالی صاحب کو شفاء ہسپتال اسلام آباد لیکر آیاہواہوں‘‘ بندہ پریہ بات بجلی بن کرگری کہ مولانا صحت مند، چاک وچوبند ،کڑیل جوان ، فورا مفتی عبداللہ ہزاروی کے ہمراہ ہسپتال پہنچا ٹیسٹ وغیرہ کے بعد یہ افسوس ناک خبر آئی کہ مولانا مرحوم کے دونوں گردے فیل ہو چکے ہیں ۔

مولانا مرحوم کے بڑے بھائی محمدیوسف ،مولانا محمد فاروق جلالی اورمفتی محمد صادق جلالی بھی پہنچ آئے۔G-8/2 میں کڈنی کے اسپشیلٹ سینئر ڈاکٹر سہیل احمد ودیگر سے مشاورت کے بعد پمز ہسپتال میں ایڈمٹ ہوئے فوری ڈائیلسز شروع ہوئے۔رمضان المبارک سے اٹھارہ جمادی الثانی تک نوماہ تقریبا ہر تیسرے چوتھے دن ڈائیلسز ہوتے، ابتدا ء کی چند بارکے علاوہ باقی علاج کا سلسلہ نفیس ہسپتال فراش ٹاؤن میں رہا ۔آخری دن بھی ساڑھے گیارہ بجے دن کو ’’روات ‘‘گھر سے واپس ہسپتال آئے۔مولانا مرحوم کے بہت ہی قریبی ،معتمد اور بے تکلف دوست جو بیماری کی ابتدا سے لے کر زندگی کے اختتام تک سایہ کی طرح مولانا کے ساتھ رہے، بیماری کی ابتدائی اطلاع بندہ اور بھائیوں کو انہوں ہی نے دی اور انتقال کی خبر بھی انہوں ہی سنائی۔

آخری لمحات میں وہ مولانا کے پاس تھے مولانا حسب معمول بڑے اطمینان سے خود چل کر ہسپتال گئے ۔خود ہی کاؤنٹر پر فیس جمع کروائی پھر بیڈپر جاکر لیٹے چند منٹ گزرے تھے کہ پسینہ سے جسم شرابور ہوگیا،داہنی طرف ٹانگ میں دردبتایا تھوڑی بے چینی محسوس ہوئی بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کردیا قریب کھڑے دیگر حضرات کو بھی کلمہ پڑھنے کی طرف متوجہ کیا صاف اور بلند آواز میں لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ کہتے کہتے ہمیشہ کیلے خاموش ہوگئے۔

بیمار عشق لے کے تیرانا م سوگیا
مدت کے بیقرار کو آرام آگیا۔

انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ اللھم اکرام نزلہ، ووسع مدخلہ ، وابدلہ دارا خیرامن دارہ، واھلا خیرمن اھلہ۔

چھپ گیا آفتاب شام ہوئی
اک مسافر کی راہ تمام ہوئی۔

پسماند گان میں ایک بیوہ جس نے مولانا کی علالت میں اکیلے گھر کے نظم ونسق ،بچوں کی دیکھ بھال اور مرحوم کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مولانا مرحوم نے انتقال سے تین چار دن قبل بتایا کہ ا س بے حد صبر آزمامرحلے میں ایک دفعہ بھی پیشانی پر بل تک نہیں لائی ۔فجزاھا اللہ احسن الجزاء۔۔۔ دو بیٹے تین بیٹیاں، بچوں میں سب سے بڑابیٹا محمد سعد جو تقریبا بارہ سال کا ہے۔ سب سے چھوٹا بیٹا محمد فہد ہے جو تقریبا دوسال کا ہے۔ درمیان میں تین بیٹیاں ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پسماندگان اور جملہ برادران کو صبر جمیل عطافرمائے اور مولانا کے یتیموں کی کفا لت کا بہتر انتظام فرمائے ۔اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ کے ارشاد گرامی کامفہوم ہے، لوگو! یتیموں کا خیال رکھنا۔ میں نے والدین کی ٹھنڈی چھاؤں سے محرومی پر یتیمی کی کڑ کتی دھوپ دیکھی ہے، کریم آقا ﷺ نے شہادت والی انگلی اور ساتھ والی انگلی ملاکر مجمع کے سامنے بلند کرکے فرمایا’’ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا قیامت کے دن جنت میں اس طرح ساتھ ہونگے‘‘۔ مولانا مرحوم کے بچوں کی کفالت کے بردران کے سر ہے جو خدمت وشفقت میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔
اللھم لاتحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے