فرقہ واریت کے نقصانات

بعثت نبویؐ سے قبل چہار اطراف ظلمتیں، تاریکیاں، عصبیتیں، قومی تفاخر، لسانی و مذہبی تقسیمات عام تھیں امت افراق کی شکارتھی باہمی روادای بھائی چارگی انسان دوستی عنقا تھی۔مزدور کے حق کو غصب کیا جارہاتھا،ماں ،بہن،بیٹی اور بیوی کے حقوق کی حق تلفیاں کی جاتی تھیں،حصول جاہ و منزلت کے لیے اپنے والدین سمیت خونی رشتوں کا بھی قتل عام کیا جاتاتھا۔ایسے میں اللہ تعالی نے خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانہ جاہلیت کی تمام برائیوں کی بیخ کنی شروع فرمائی، اس امر کا واضح یہ مطلب تھا کہ اللہ تعالی انسان کے ذاتی عابد و بزرگوار بننے سے بے پرواہے جب کہ اللہ کے ہاں اجتماعیت ،بہترین اخلاق ،انسان دوستی،صلح رحمی،رنگ و نسل کی تقسیمات سے دوری،مساوات اور عدل مطلوب و مقصود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا۔

اَلْمُوْمِنُ کَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُه بَعْضًا وَشَبّک بَيْن اَصَابِعه.

’’مومن ایک ایسی دیوار کی مانند ہیں جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے (پھر مثال سمجھانے کے لئے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر جال کی طرح بنایا ۔

مطلب یہ تھا کہ جس طرح انگلیاں الگ الگ وجود رکھتی ہیں لیکن ایک ہاتھ کے اجزا ہونے کی وجہ سے آپس میں مل کر ایک قوت ہیں اسی طرح مومن بظاہر الگ الگ وجود رکھتے ہیں لیکن عقیدہ توحید و رسالت کے ذریعے ایک طاقت ہیں اور مل ایک کر مضبوط دیوار کی مانند ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور موقع پر امت مسلمہ کو جسد واحد قرار دیا کہ جس کا ایک عضو بیمار ہوتو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔

آج امت مسلمہ کے باہمی نزاعات و اختلافات اور تفرقہ بازی نے جو صورت اختیار کرلی ہے اسے دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ وہی امت ہے جس کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا تھا :
وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا
(آل عمران : 103)
’’اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے ‘‘۔

دین کی نسبت سے اخوت و محبت کی لڑی میں پروئے جانے کے لمحات تاریخ اسلامی کے درخشندہ ترین لمحات تھے اور ان لمحات کو دوام بخشنے کے لئے یہ بھی فرمادیا کہ
وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُوْلَـئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌO
(آل عمران : 105)

’’اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے تھے اور جب ان کے پاس واضح نشانیاں آچکیں اس کے بعد بھی اختلاف کرنے لگے، اور انہی لوگوں کے لئے سخت عذاب ہےo‘‘۔
دشمنی اور بغض و عناد پر مبنی مخالفت و گروہ بندی اور بات ہے جبکہ علمی اختلاف رائے بالکل ہی الگ چیز ہے۔ علم و تحقیق میں رائے کا مختلف ہونا ایک فطری امر ہے اور یہ شریعت کے منافی بھی نہیں۔ اسلام میں اس کی گنجائش ہے کیونکہ علمی اختلاف رائے سے ہی علم کے افق وسیع ہوتے اور خوب سے خوب تر کا سفر جاری رہتا ہے۔ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو ہمیں ایک طرف فقہی دنیا میں علمی اختلاف رائے کی بنا پر شافعی، مالکی، حنفی اور حنبلی وغیرہ فقہی مکاتب فکر نظر آتے ہیں تو دوسری طرف تصوف کی دنیا میں چشتی، قادری، نقشبندی، سہروردی اور اویسی سلاسلِ طریقت دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ایسا کبھی نہ تھا کہ ان کے مابین علمی و فکری اختلاف فتنہ و فساد برپا کرنے یا امت کا شیرازہ منتشر کرنے کا باعث ہوا ہو۔

ان مختلف علمی مکاتب فکر کے باوجود امت کا شیرازہ بکھرنے سے محفوظ رہا تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے اپنے نقطہ نظر کو صرف اولیٰ قرار دیا تھا، اسے کفر اور اسلام کی جنگ نہیں بنایا تھا۔ ہمیں تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ کسی ایک خانقاہ نے اٹھ کر دوسری خانقاہ کو جلا دیا ہو یا کسی حنفی نے کسی شافعی کے مدرسے پر حملہ کرکے اس کے علمی ذخیرے کو نذر آتش کر دیا ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کے مابین مروت، رواداری، تحمل و برداشت اور دیگر اخلاقی قدریں اخلاص کے ساتھ موجود تھیں۔ وہ ایک دوسرے سے ملتے، علمی استفادہ کرتے دوسرے مکتب فکر کے شیوخ کو بھی اپنے شیخ کی طرح جانتے اور ان کے ادب و احترام میں کوئی فرق نہ کرتے۔حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بغداد میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضر ہوتے ہیں، ان کی مسجد میں نماز ادا کرنے لگتے ہیں تو رفع یدین نہیں کرتے۔ کسی نے استفسار کیا کہ حضرت آپ کے نزدیک رفع یدین ضروری ہے لیکن آج آپ نے خود اپنی تحقیق پر عمل نہیں کیا، کیا آپ نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا ہے، فرمایا : نہیں بلکہ مجھے اتنے بڑے امام کی بارگاہ میں آکر ان کے مسلک کے خلاف عمل کرتے شرم آتی ہے۔

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ دونوں علم و فضل فقہی بصیرت اور زہد و اتقاء میں بلند مقام رکھتے تھے، بہت سے مسائل میں ان کے مابین شدید علمی اختلاف بھی ہوا لیکن حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی فوت ہوئے تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تعزیت کے لئے ان کے ہاں چلے گئے، حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے آگے بڑھ کر استقبال کیا اور انہیں بڑی عزت و تکریم کے ساتھ لاکر اپنی مسند پر بٹھایا اور خود بڑے ادب کے ساتھ ان کے سامنے بیٹھ گئے۔ امام صاحب کے جانے کے بعد کسی نے حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا : حضرت آپ نے ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا اتنا اکرام کیوں کیا؟
فرمایا : یہ شخص علم کے بڑے بلند درجے پر فائز ہے، پھر سائل کے چہرے کے تاثرات بھانپتے ہوئے فرمایا : چلو اگر میں ان کے علم کی وجہ سے ان کی عزت نہ کرتا تو کیا ان کی عمر کا بھی لحاظ نہ کرتا کہ وہ مجھ سے بڑے ہیں۔ اس سے بھی قطع نظر کر لیتا تو ان کے ورع و تقوی کا لحاظ بھی نہ کرتا کہ پرہیزگاری میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔

سبحان اللہ کیا للہیت ہے کہ نفسانیت کا شائبہ تک نہیں۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا شدید علمی و فقہی اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک، مروت، رواداری میں کمی نہیں آتی تھی۔
بعد ازاں جب مسالک معرض وجود میں آگئے اور ان کے مابین اخلاص پر مبنی علمی اختلاف کی بجائے نفسانیت پر مبنی مخالفت آگئی اور یہ مخالفت مخاصمت اور عداوت میں بدل گئی، ہوتے ہوتے باہمی منافرت اس حد تک بڑھی کہ ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کرنے لگے۔ بقول ابن انشا ایک وقت تھا کہ دائرہ اسلام میں لوگوں کو داخل کیا جاتا تھا اب صرف خارج کیا جاتا ہے۔ چنانچہ آج مختلف مسالک کے مابین منافرت سازی، تکفیر بازی اور بدعت و شرک اندازی کے جو تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں اور صورت حال یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک دوسرے سے سلام کے بھی روادار نہیں۔

اس صورتحال سے نکلنے کا ایک اتحاد ، رواداری ، ہم آہنگی اور آپس میں اختلاف کو برداشت دینے کی تعلیمات کو فروغ دیا جائے ۔اس حوالے سے علماء کی تیار کردہ دستاویز اتحاد امت کا بیانیہ کی زیادہ سے زیادہ فروغ دینا چاہیے ۔

مسلک گزیدہ لوگوں کی یہی وہ سوچ ہے جس نے اخوت اسلامی کو تباہ اور وحدت امت کا شیرازہ بکھیر دیا۔ ہماری وہ صلاحیتیں اوروسائل جو غیروں کو دعوت دین کے لئے استعمال ہوتے وہ اپنوں کو غیر مسلم اور کافر ثابت کرنے میں صرف ہونے لگے۔ چنانچہ ہر مسلک کے کتب خانوں میں ایسی فکر پر مبنی کتابوں کے انبار لگنے لگے جس میں مخالف کو مشرک، بدعتی اور دائرہ اسلام سے خارج ثابت کیا جاتا ہے۔ اسی سے نفرت کی آندھیاں اور طوفان اٹھتے ہیں اور ایک خدا، ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ایک کتاب کو ماننے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو کر غارت گری پر اتر آتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے