ریاست کی بنیاد،سیکولرازم یا اسلام

کسی بھی ریاست کی بنیاد مذہب پر نہیں رکھی جاسکتی کیونکہ مذہب چند عقائد اور رسوم و رواج کا مجوعہ ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب تہذیبی مذہبی اور اخلاقی قدریں تو متعین کرتے ہیں مگر ایک خاص نظام جس کے تحت دنیا میں زندگی بسر کی جائے اور ریاستی باگ دور سمبھالی جائے، نہیں دیتے۔ ریاست ایک خاص آئیڈیالوجی یعنی نظریات و مبّدا کی بنیاد پر ہی وجود میں آسکتی ہے جس میں ایک خاص عقیدے اور اس سے نکلنے والے نظام شامل ہوتے ہیں۔ کسی بھی ریاست کو چلانے کے لیے جو نظام درکار ہوتا ہے ان میں چھ قسم کے مختلف نظام یعنی حکومتی نظام، معاشی نظام، معاشرتی نظام، خارجہ پالیسی، قانونی نظام اور تعلیمی نظام شامل ہیں۔ ریاست کی بنیادجس نظریے پر ہوگی اسی سے پھوٹنے والے نظام کے تحت ریاست چلائی جائے گی۔

نظام عقیدے کے بغیر کچھ نہیں ہوتا، اور انسانی معاشرے کا عقیدہ بنیادی طور پر تین سوالات پر مبنی ہوتا ہے۔ اس دنیا سے پہلے سے کیا تھا، اس دنیا کے بعد کیا ہوگا اور ان دونوں باتوں کا اس دنیا سے کیا تعلق ہے؟ ان سوالات کے جواب پر ہی انسانی معاشرے کا عقیدہ قائم ہوتا ہے ۔

اسی لیے سیکولرازم خود ایک عقیدے کا نام ہے، جس کا ماننا ہے کہ زندگی سے ما قبل و بعد کچھ بھی ہے، کوئی بھی مذہب ہے، انسان کسی بھی خدا کو ماننے والا ہو یا اہلِ الحاد ہو، وہ انسان کا ذاتی پہلو ہے، اس کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مختصراً ریاست ملحد ہوگی۔ ریاستی نظام کے لیے انسان کسی خدا کا محتاج نہیں بلکہ آزاد ہے اور اپنے مفاد کے لحاظ سے دنیاوی فیصلے لینے کا انسان کو پورا حق ہے۔ ریاست کی بنیاد آزادی اور مفاد کے اوپر ہوتی ہے۔

بنیادی طور پر سیکولر ازم خود ایک مفاہمتی سوچ کا نام ہے جو کہ سترہویں صدی عیسویں میں خدا کے ماننے والوں اور چرچ کے خدا کےنام پر ظلم و ستم سے پریشان لوگوں کے درمیان مفاہمت کی وجہ سے وجود میں آیا۔ اسی لحاظ سے سیکولر ازم خود ایک فکری پستی ہے جس میں ایک خدا ،یعنی ایسی طاقت جو انسان سے بہت بڑی ہے، کو مانتے ہوئے بھی اس خدا کو دنیاوی امور میں دخل اندازی کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

سیکولر ریاست اپنے فیصلوں میں آزاد ہوتی ہے اور اسی آزادی کی بنیاد پر ریاست کے چھ نظام مرتب کیے جاتے ہیں۔ انسان خود اپنے لیے صحیح و غلط کا فیصلہ کرتا ہے۔ انسان ہی خود اپنا معاشی، معاشرتی، قانونی ، حکومتی ، تعلیمی نظام مرتب کریگا اور خود ہی فیصلہ کرے گا کہ ریاستی تعلقات کس طرح کے ہونے چاہیئے۔ گو کہ انسان انسان کا غلام بن کر اپنی زندگی بسر کریگا، بھلے اس میں اکثریت کی رائے کا خواب عوام کو دیکھایا جاتا رہے مگر نظام حقیقت میں چند انسانوں کے ہاتھ میں ہی ہوگا۔

ذاتی و ریاستی مفاد کی سیکولرازم میں بہت اہمیت ہے۔ سیکولرازم سے پھوٹنے والا معاشی نظام ، یعنی سرمایہ داریت مفاد و آزادی پر ہی قائم کیا گیا ہے۔ اور مفاد کی بنیاد پرہی سیکولرازم میں خارجہ پالیسی بنائی جاتی ہے۔ جس ملک سے زیادہ فائدہ ہوگا اس سے ریاستی سطح پر اچھا رشتہ استوار کیا جائے گا۔ تعلیمی نظام آزادی اور مادہ پرستی کو ریاست کی نئی نسلوں میں منتقل کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں، جس سے نئی نسل کو آزادیِ عقیدہ،آزادیِ رائے، آزادیِ ملکیت اور شخصی آزادی کا درس دیا جائے گا تاکہ ان میں سیکولرازم کا نظریہ فروغ پاتا رہے۔

اسکے برعکس دینِ اسلام کا عقیدہ ہے جس میں اللہ کا وجود ہی حقیقی خالق و قادرِ مطلق ہے ۔ انسان اس دنیا سے پہلے اسی وجودِ لاشریک کے پاس تھا جہاں اس نے دنیا میں اللہ کے حکم کو نافذ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ انسان اس دنیا میں اسی کا غلام ہے اور اس دنیا کے بعد اللہ کے پاس جائے گا اور یہاں کا حساب دیگا۔ اس عقلی عقیدے کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے جیسے انسان کی غلامی سے نکل کر اللہ کی غلامی کا اقرار کرے۔ اور دنیا میں اللہ کے بتائے ہوئے نظام کا نفاذ کرے۔

اسلام کو دین فطرت اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اسلام انسان کو عبادات اور اخلاقیات کے ساتھ انسانی معاشرے کے نظام بھی بتاتا ہے۔ جنھیں ریاستی سطح پر انسانوں پر نافذ کیا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد آزادی یا مفاد پر نہیں بلکہ اللہ کی بندگی اور اسلامی نظریے پر ہوتی ہے۔اسلام زندگی کے ہر معاملے میں رہنمائی کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات انسانی معاشرے کے تمام نظام کا احاطہ کرتی ہیں۔اسلامی ریاست ہی ہر انسان کے بنیادی ضروریات پورا کرنےکی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اس عقیدے سے پھوٹنے والا نظام ہی عقلی ہے کیونکہ یہ عین عقلی ہے کہ انسان اپنے سے بڑی طاقت کی بندگی کرے ، اور اللہ تو خالقِ کائنات و جن و انس ہے۔ جس نے انسان اور انسانی معاشرے کو بنایا ہے اسی کے بتائے ہوئے نظام کو اپنایا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے